در بدر افغانوں کی خدمت کے جذبے سے سَرشار جاپانی ڈاکٹرٹیٹسو ناکا مورا کے بہیمانہ قتل نے مجھ سمیت لاکھوں انسانوں کو دکھی کردیا-ڈاکٹرناکاموراکے سفاک قاتل یقینا اس خوش فہمی میں مبتلا ہونگے کہ انہوں نے ایک غیر ملکی اور غیر مذہب انسان کو قتل کرکے اپنے لیے جنت واجب کرلی لیکن حقیقت میں یہ ان کی بھول ہے- اول تو کسی بھی مذہب کے ماننے والے بے گناہ افراد کی جان ومال کو تحفظ فراہم کرناہمارے دین کی اولین ترجیح ہے،سو بغیر کسی شرعی جواز کے ایک مسلمان کیلئے کسی عیسائی ، یہودی یا دوسرے غیر مذہب کو مارناقطعاً ناجائز اور حرام ہے۔لیکن ڈاکٹر ناکا مورا جیسے انسان دوست اور درددل رکھنے والے محسنوں کا قتل تواس سے بھی بڑاجرم ہے ۔ڈاکٹرناکامورا کے مظلومانہ قتل کو میں مفلوک الحال افغانوں کاطبی ، معاشی اورامن و خوشحالی کا قتل سمجھتاہوں- جاپان کے گنجان آبادشہر فاکوکا میں 1946ئمیں پیداہونے والایہ انسان دوست ڈاکٹرایک غیر سرکاری تنظیم’’ پیس جاپان میڈیکل سروسز (پی ایم ایس) کے سربراہ تھے جو ’’پشاور۔کے‘‘ کے نام سے بھی مشہور تھے۔آج سے پینتیس برس قبل پہلی مرتبہ جب ڈاکٹرمورا پاکستان آئے تھے تب بھی افغانوں کی خدمت ان کی اولین ترجیح تھی اور سوویت انخلا کے بعد جب وہ افغانستان منتقل ہوئے تو اس وقت بھی ان کا مشن افغانوں کی خوشحالی تھا۔ انہوںنے 1984ء میں پہلی مرتبہ پشاور میں طبی بنیادوں پر غریبوں بالخصوص ان افغان مہاجرین کی مدد کو اپنا وظیفہ بنایاجو سوویت افغان جنگ کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں کیمپوں میں پناہ گزین تھے- اسی زمانے میں جذام ایک وبائی مرض کی شکل اختیار کرچکا تھا، ظاہر بات ہے کہ اس بیماری سے بے یار و مددگارافغان مہاجرین بھی زیادہ متاثر ہوئے تھے۔پی ایم ایس کے تحت ڈاکٹر مورانے مفلوک الحال افغانوں کے پائوں میں جذام کی وجہ سے پیدا ہونے والے زخم کو سنجیدگی سے لیااور اس کے علاج کی فکر انہیں دامن گیر ہوئی-وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان غریب لوگوں کے پائوں میں پڑنے والے زخم اور چھالے حقیقت میں اُن میلے اورغیرمعیاری چپلوںکی وجہ پڑتے ہیں جنہیں وہ مجبوری سے پہنتے ہیں-مہاجرین کے پیپ زدہ اور رستے ہوئے زخموں کے علاج کے لئے انہوںنے ان کے لئے سافٹ چمڑے، ربڑ اور اسفنج کی بنی ہوئی جوتیوں کا اہتمام کیا۔ سوویت افواج جب 1989ء میں افغانستان سے نکلیں تو ڈاکٹر ناکامورادوسال کے بعد اپنی چار رکنی ٹیم کیساتھ ایک جیپ کے ذریعے سرحدپار کرکے افغانستان کے علاقے ننگرہار پہنچے ۔یہ 1991ء کاسال تھاجب انہوں نے وہاں پرایک میڈیکل کلینک کھول کر ہزاروں افغانوں کے علاج کا بیڑہ اٹھایا ۔صرف ایک سال میں جذام کے مریضوں سمیت چھتیس ہزار مریضوں نے ان کے کلینک سے علاج کروانے کیلئے رجوع کیا ۔ دوسال بعد جب اس علاقے میں ملیریا کی سخت وبا پھیلی توڈاکٹر ناکا مورا نے اپنے ملک جاپان سے ہنگامی بنیادوں پر مدد کی اپیل کی اورلگ بھگ بیس ہزار ملیریا کے مریضوں کا علاج کیا۔افغانوں کی زندگی بدلنے کیلئے 2001ء میںانہوںنے’’ افغان فنڈ فار لائف‘‘ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا-نائن الیون حملوں کے بعد جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایک نئی جنگ کا آغاز کیاتوڈاکٹر موراتھے جنہوں نے پچاس ہزار بے گھر افراد کو خوراک کی فراہمی یقینی بنائی ۔ اپنی این جی او پی ایم ایس کے تحت انہوں نے افغانوں کیلئے صاف پانی کی فراہمی کیلئے چھ سو کے قریب کنویں کھودنے کاکام شروع کیا لیکن بعد میں اسے ناکافی سمجھتے ہوئے اگلے سال انہوں نے گرین گرائونڈ پراجیکٹ کا آغاز کیا۔گرین گرائونڈ پراجیکٹ کے تحت 2003 ء میںانہوںنے ننگرہار کی بنجر زمین کو آباد کرنے کی غرض سے خیوہ ضلع میں ایک بڑی نہر پر کام شروع کیا۔دریائے کنڑ سے پچیس کلومیٹرنکالی گئی اس طویل نہر کاکام 2010ء میںمکمل ہوا جس نے لوگوں کی زندگی بدل دی۔ کہاجاتاہے کہ اس پروگرام کی ذمہ داری ان کے ساتھی Kazuya Ito نے اٹھائی تھی جوبدقسمتی سے2008 ء میں دہشتگردوںکے ہاتھوں قتل ہوئے ۔بعد میں اس پروگرام کو ڈاکٹر مورانے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ماضی میں طبی خدمات کے علاوہ انہوں نے صرف صوبہ ننگرہار میں زراعت کے لیے آبپاشی پر اب تک کروڑوں یَن لگا ئے ہیں۔ 2016ء میں سخت جان مورا نے مزید آٹھ نہریں نکالیں، جواس وقت 16000 ہیکٹر رقبے کو سیراب کر رہی ہیں۔اس وقت صرف ضلع گمبیری کے چھ لاکھ افرادان کے کام سے مستفید ہو رہے ہیں۔افغانوں کی زندگی بدلنے کامشن اپنے سر لینے والے ڈاکٹر ناکامورا کو زیادہ عقیدت اور پیار سے لوگ ’’کاکامراد‘‘ کہتے تھے ۔ڈاکٹر مورا ایک مخلص سماجی ورکرکے ساتھ ساتھ جنون کی حدتک امن کے پرچارک تھے ۔وہ اکثرکہتے کہ’’ اسلحہ اور ٹینکس مسائل کا حل نہیں ہے۔زیادہ عقیدت اور پیار کی وجہ سے ننگرہار کے لوگ انہیں ’’مرادکاکا‘‘ کہتے تھے۔امریکی بمباری سے متعلق ایک دفعہ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ فضا سے موت بانٹتے ہیں اور ہم زمین کھود کر زندگی بناتے ہیں‘‘۔افغانوں کے روشن مستقبل کیلئے وسیع بنیادوں پر کام کرنے کی غرض سے ڈاکٹر مورا رواں سال جاپان گئے تھے لیکن واپسی پر افغان دشمن قوتوں نے انہیں مزید خدمت کا موقع فراہم نہیں کیااور انہیں ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا۔ تہتر سال کے ڈاکٹر ٹیٹسو ناکامورا کو انسان دوست خدمات کے صلے میں امن کا رومن ماگسیسی ایوارڈ(جسے عموماً ایشیاء کا نوبل انعام کہاجاتاہے) ملنے کے علاوہ پچھلے سالوںافغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے بھی انہیںایک ایوارڈ اور افغانستان کی اعزازی شہریت سے نوازاتھا۔ انسانیت اور خصوصاً افغانوں کی خوشحالی کیلئے ڈاکٹرناکاموراکے خدمات صدقابل تحسین ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے پسماندہ خاندان کو صبرعطاکرے اوران سے بہتر معاملہ فرمادے۔