پاکستان، ایران، افغانستان اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے افغان مہاجرن کی رضاکارانہ واپسی کے فریم ورک کی تین نکاتی پالیسی پر اتفاق کیا ہے۔ 1979ء میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد لگ بھگ 30 لاکھ افغانی جان بچانے کے لئے سرحد عبور کرنے پر مجبور ہوئے تو پاکستان نے بھی مواخات مدینہ کی مثال تازہ کرنے ہوئے دیدہ و دل فرش راہ کئے۔ پاکستانیوں نے تمام تر معاشی بحرانوں کے باوجود اپنے افغان بھائیوں کے لئے دل تنگ نہ کیا۔ یہاں تک کہ افغان کلچر کے ساتھ پاکستان میں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر بھی در آیا اور افغان مہاجرین عالمی اصول کو نظر انداز کرکے مہاجر کیمپوں سے نکل کر پورے ملک میں پھیل گئے۔ روس کے انخلا کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں مہاجرین کی واپسی کا عمل شروع ہوا جو 9/11 کے بعد افغانستان پر امریکی حملوں کے بعد تعطل کا شکار ہو گیا۔پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی تیسری نسل پاکستان میں جوان ہو رہی ہے اور ان کی مقامی پشتونوں سے رشتہ داریاں واپسی کے عمل کو مزید پیچیدہ کر رہی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اقوام متحدہ نے مہاجرین کی اعانت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے تو افغان حکومت بھی پاکستان کی ممنون ہونے کی بجائے شاکی و نالاں نظر آتی ہے جو پاکستانی قوم کی دل آزاری کی وجہ بن رہی ہے۔ ان حالات میں پاکستان ایران اور اقوام متحدہ کا 20 لاکھ مہاجرین کی واپسی پر تین نکاتی اتفاق نیک شگون ہے۔ بہتر ہو گا حکومت جتنی جلد ممکن ہو سکے مہاجرین کی واپسی کو یقینی بنائے تاکہ ملکی معیشت میں بہتری کے ساتھ معاشرتی جرائم کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکے۔