امریکہ اور طالبان کے مابین بیس سال سے جاری جنگ امریکہ کی شکست اور با لآخر 31 اگست کو افغانستان سے مکمل انخلا کی صورت میں اختتام پزیر ہوا ہے جبکہ طالبان کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد حکومت سازی کے مراحل میں مصروف ہیں۔طالبان نے عالمی برادری سے یہ وعدہ بھی کر رکھا ہے کہ وہ اِتفاقِ رائے پر مبنی ایک حکومت تشکیل دیں گے، جو سب کے لیے قابلِ قبول ہوگی لیکن بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ اقوامِ عالم خاص طور پر مغربی ممالک طالبان کی طرف سے اس ضمن میں دئیے گئے، بیانات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ گزشتہ چالیس سال سے افغانستان پر بیرونی طاقتوں (1979 میں سابق سوویت یونین اور 2001 میں امریکہ) کے حملوں کے نتیجے میں جاری لڑائی اور موجودہ حالات سے امریکہ، یورپ، علا قائی طاقتوں، پاکستان اور خود طالبان کے لیے بھی کئی سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کے لیے سب سے اہم سبق یہ ہے کہ طالبان ایک حقیقت ہیں، جنہیں افغان عوام کے ایک قابلِ ذکر طبقے کی حمایت حاصل ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بیس سال کی طویل لڑائی بغیر عوامی حمایت کے جیتنا تو در کنار بلکہ لڑنا بھی نا ممکن ہے جبکہ طالبان،امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کے خلاف تقریبا دو دہائیوں تک برِ سرِ پیکار رہے ہیں اور امریکہ کی تربیت یافتہ افغان فوج تو دس دن بھی طالبان کا مقابلہ نہیں کر سکی۔ اِسی طرح افغان وار لارڈز جن کی امریکہ نے بھرپور امداد کی، طالبان کے خلاف ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ امریکہ کو اب چاہئیے کہ طالبان کو دیوار کے ساتھ نہ لگائے اور افغانستان کے تقریبا نو ارب ڈالر مالیت کے جو اثاثے منجمد کیے ہیں، انہیں بحال کردے اور آئی ایم ایف کی طرف سے روکے گئے چار سو ملین ڈالر بھی جاری کروادے کیونکہ اگر طالبان کی حکومت ناکام ہوتی ہے تو افغانستان ایک دفعہ پھر خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے، جس کے اثرات افغانستان کے ہمسایہ ممالک سمیت یورپ اور امریکہ تک پہنچیں گے۔ جس میں سب سے اہم دہشت گردی کا عالمی خطرہ ہے اور اِس کی مثال اسلامک سٹیٹ۔ خراسان کے کابل ائیر پورٹ پر کیے گئے دہشت گردی کے حملے ہیں۔ اِسی طرح طالبان کی ناکامی سے خانہ جنگی شروع ہونے کا اندیشہ ہے جس سے افغانستان منشیات کا گڑھ بن سکتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ اور مغربی ممالک کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی سابقہ غلطیاں نہ دہرائیں اور افغانستان کو ماضی کی طرح اس کے حال پر نہ چھوڑیں، بلکہ طالبان کو اَنگیج کریں۔ امریکی سکیرٹری بلنکن نے اپنے تازہ بیان میں اس موقف کو دہرایا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اس اَمر پر غور سے نظر رکھے ہوئے ہے کہ طالبان کس قسم کی حکومت تشکیل دیتے ہیں؟ اور اِس میں طالبان کے علاوہ افغان سیاسی دھڑوں کو کس حد تک شراکت داری دیتے ہیں؟ یورپی ممالک کے لیے بھی سبق ہے کہ وہ زمینی حقائق کو خاطر میں لاتے ہوئے حقیقت پسندانہ سوچ اپنائیں اور طالبان کے ساتھ روابط بحال رکھیں کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے وگرنہ شام کی طرح افغانستان کے مہاجرین کا سیلاب اِس دفعہ انہیں بھی متاثر کر سکتا ہے کیونکہ افغانستان کے پڑوسی ایران اور پاکستان پہلے ہی افغانی مہاجرین کا گزشتہ تین دہائیوں سے بوجھ برداشت کر رہے ہیں اور کورونا جیسی عالمی وباء کی صورتحال میں ان کے لیے مزید مہاجرہن کا بوجھ نا قابلِ برداشت ہو گا۔ اِسی خطرہ کا شاید اِدراک کر تے ہوئے یورپی یونین نے تین ستمبر کو سلووانیہ میں ہونے والے اپنے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں طالبان کے ساتھ مشروط روابط قائم رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ یورپی یونین کے خارجہ اَمور کے نگران بوریل نے کہا ہے کہ " ہمیں افغانستان کی نئی حکومت کے ساتھ اَنگیج ہو نا پڑے گا، جس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان کی حکومت کو تسلیم کیا جارہا ہے بلکہ یہ صرف ایک آپریشنل اَنگیجمنٹ ہے" البتہ اِن روابط کے قیام کے لیے یورپی ملکوں کے وزرائے خارجہ نے جو شرائط تجویز کی ہیں، ان میں سب سے اہم شرط یہ ہے کہ طالبان کی نئی حکومت اپنے دورِ میں اِس بات کو یقینی بنائے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے ٹھکانے کے طور پر استعمال نہ کی جائے۔ مو جودہ صورتحال میں خود طالبان کے لیے اہم سبق یہ ہے کہ وہ بیانات سے نکل کر عملی اقدام اٹھائیں اور عالمی برداری سے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنائیں ،جن میں اس وقت سب سے اہم قدم ایک ایسی حکومت کا قیام ہے، جس میں ازبک اور تاجک سمیت تمام قومیتوں کی نمائیندگی شامل ہو جبکہ ان کی حکومت میں خواتین کے حقوق سمیت اِنسانی حقوق کو تحفظ حاصل ہو۔ طالبان کو یہ بھی سمجھنا چاہئیے کہ افغانستان میں بیس برس میں بہت ساری تبدیلیاں آ چکی ہیں،خاص طور پر کابل میں ایک پڑھی لکھی اور متحرک مڈل کلاس وجود میں آ چکی ہے،جو آزاد میڈیا کے دور میں پروان چڑھی ہے جو گزشتہ دو دہائیوں میں حاصل شدہ آزادی سے موجودہ سوشل میڈیا کے دور میں آسانی سے دستبردار نہیں ہو گی۔ اِس صورتحال میں پاکستان کو بھی محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے، پاکستان کو طالبان کی فتح کا کریڈٹ لینے کی بالکل کوشش نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے اور یہ کریڈٹ آنے والے دِنوں میں پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے کیونکہ پاکستان مخالف عناصر عالمی برادری میں پاکستان کے خلاف پرا پیگنڈہ کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ اِسی طرح پاکستان کو طالبان کو ڈکٹیشن دینے سے اجتناب کرنا چاہئیے کیونکہ اب وہ اقتدار میں آ چکے ہیں اور اپنے ملکی مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کریں گے۔ البتہ انہیں پاکستان مخالف تحریک طالبان پاکستان سے ترکِ تعلق کرنا ہوگا اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے ٹھکانے کے لیے استعمال کرنے سے مکمل طور پر روکنا ہو گا تاکہ دونوں ہمسایہ اور برادر ملکوں کے مابین خوشگوار اور دیرپا باہمی تعلقات قائم رہ سکیں۔