اقبال آسمانوں کی سیرکو نکلے تو انہیں پاکستان کے شہروں کا نظارہ نظر آیا۔ عورتیں ہوں گی‘ ریلیاں ہوں گی اور شاید ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈ بھی ہوں۔ شاید اتنے بیہودہ نہ ہوں جتنے آج بنائے گئے ہیں اور اٹھائے گئے ہیں۔ ان کے درمیان ایک دوشیزہ کھڑی تقریر کر رہی تھی۔ اقبال کو بتایا گیا کہ اس خاتون نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ اسے ابلیس مغرب سے لے کر آیا ہے‘ مگر یہ کہتی ہے کہ آسمانوں سے اتری ہوں۔ یہ خاتون نبی‘ جسے اقبال نے نبیویہ مریخ کا نام دیا ہے۔ مجمع سے خطاب کر رہی تھیں‘ وہی مائوں ‘ بہنوں بیٹیوں قوموں کی عزت تم سے ہے۔ اقبال ذرا اور طرح بیان کرتے ہیں کہتے اے عورتو‘ اے مائو ں‘ اے بہنو‘ کب تک معشوقوں کی مانند زندگی بسر کرتی رہو گی۔ ارے بھائی یہ معشوقانہ انداز ہی تو تمہاری مظلومی‘ محکومی اور محرومی کا سبب ہے۔ اٹھو اور اپنی زندگی بدل ڈالو۔ ایک لمبا وعظ ہے… میں کوشش کر رہا تھا کہ اس لچر پن کے ذکر سے اجتناب کروں جو یوم خواتین کے نام پر ہمارے ملک کے اکثر شہروں میں برپا کیا گیا۔ آپ ویلنٹائن ڈے روکیں گے تو ہوس کاری اور بدتمیزی کا لاوا کسی اور طرح سے ابل پڑے گا۔ ذاتی طور پر میں اسے بہت ہی گہرا تہذیبی مسئلہ سمجھتا ہوں‘ بلکہ مری سوچی سمجھی رائے تو یہ ہے کہ کسی بھی تہذیب کی تشکیل عورت اور مرد کے درمیان قائم اس رشتے‘ اس مساوات‘ اس equationپر ہے جو اس معاشرے میں ان کے درمیان قائم ہو جاتی ہے۔ میں ادب کا طالب علم ہوں اور ادب کا کوئی طالب علم زندگیوں میں نسائی حرکیات سے انکار نہیں کر سکتا۔ مرے لئے یہ زندگی کا بہت سنجیدہ مطالعہ ہے جسے چم چم کرتی اور پٹر پٹر کرتی چند زبانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ کون ہے یہ لوگ جو ہمارے رول ماڈل بنائے جا رہے ہیں اور جن کے چرچے کئے جاتے ہیں۔ می ٹو‘ می ٹو‘ ہم بھی سر جھکا لیتے ہیں‘ کہیں دقیانوسی کو نہ قرار دیے جائیں۔ انہیں ڈر نہیں ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں اگر برا نہ لگے توذرا بتائیے یہ جو ہمارے ہاں دو اداکاروں کے درمیان جنسی ہراسگی کا ڈرامہ چل رہا ہے‘ ان کی پرانی تصاویر دیکھی ہیں؟ کیا ان تصاویر کی موجودگی میں کسی کو زیب دیتا ہے کہ وہ اپنی پارسائی کی صلیب اٹھا کرسربازاررقص کناں ہوں۔ آپ کیسی زندگی گزار رہے ہیں‘ گزارنا چاہتے ہیں آپ کو کوئی حیا نہیں‘ کوئی شرم نہیں اور اس پر نالش کر رہے ہیں۔ آزاد رہنا ہے تو آزادوں کی طرح رہو۔ ہمیں تنگ نہ کرو‘ ہم ایک مہذب معاشرہ ہیں۔ ایک تسلسل کے ساتھ ہمارا میڈیا ایسے رول ماڈل داغ رہا ہے۔ بھائی ہمارے ہاں شرفا کا یہ چلن نہیں رہا۔ یہ نہیں کہ زمانہ بدل گیا ہے۔بدلا جا رہا ہے۔ ہمیں مروت مروت میں اسے گلے لگا رہناچاہیے۔ ہمارے تہذیبی سفر کا اپنا انداز ہے۔ اسے اپنے انداز سے آگے بڑھنا ہے۔ کسی کی انگلی پکڑ کر نہیں۔ میں نے شاید عسکری صاحب کے ہاں پڑھا ہے کہ یہ جو بورژوا ہے یہ قابل گردن زدنی ہے۔ اور یہ لوگ جو ہماری تہذیب کو خراب کرنا چاہتے ہیں بوژو ابھی نہیں‘ پیٹی بوژوا ہیں۔ میری لڑائی ان کے خلاف ہے۔ میں اس لفظ بورژواکا ترجمہ دانستہ نہیں کر رہا نہ انہیں نودولتیے کہنا چاہتا ہوں‘ نہ مڈل کلاسیے۔ یہ تو جانے کون سی مخلوق ہے جس کی ہمارے ہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ غلط ہے یہ بات کہ چند خواتین لوگوں کو گمراہ کر رہی ہیں ان کے پیچھے آپ کو مرد نظر آئیں گے۔ جب ضیاء الحق کے زمانے میں حدود آرڈیننس کی بات چلی تھی تو دفتر کی چند لڑکیاں ایک دستاویز لے کر آئیں کہ اس پر دستخط کر دیجیے۔ یہ حدود آرڈیننس کے خلاف قرار داد تھی۔ بلکہ وہ اسے زنا آرڈیننس کہہ رہی تھیں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا‘ لائیے بسم اللہ کیجیے۔ دستخط کئے دیتا ہوں۔ صرف اتنا بتا دیجیے تمہیں اس کام کے لئے اکسایا کس نے ہے۔ اس قرار داد کے پیچھے کون کون ہے۔ آہستہ آہستہ دو ایک مردوں کے نام بھی لے دیے۔ ہنس کر بتایا کہ ان مردوں کا ایجنڈا پورا کر رہی ہو جو معاشرے میں بدکاری کو عام کرنا چاہتے ہیں۔ عجیب بات ہے‘ ہم تو معاشرے میں بدکار مردوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ یہ ہمیں ترغیب دے رہے ہیں کہ بدکار عورتوں کو بھی سر آنکھوں پر بٹھائیں۔ حضور ہمارے ہاں آزادی نسواں پر ایک طویل بحث چلی ہے۔ ایک بار میں نے لکھا تھا کہ عورت بننا اتنا مشکل ہے کہ میں نے بڑی بڑی عورتوں کو مرد بنتے دیکھا ہے۔ یہ تو پھر بھی ایک تہذیبی مسئلہ ہوا۔ یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ ہم بدکاری کو عام کریں یا اس حوالے سے تحریک چلائیں جو معاشرے کی ساری بافت کو لیر ولیر کر دیں۔ مجھے یاد ہے ایک ٹی وی پروگرام میں مہتاب اکبر راشدی میزبان تھیں دوپٹے کے حوالے سے اپنے خیالات کے لئے انہوں نے بڑی شہرت پائی تھی۔ مگر کوئی نہیں کہتا تھا کہ وہ ایک بدکردار معاشرے کی پرچارک ہیں۔ شرکاء میں تین لوگ تھے۔ ایک عائشہ منور حسن‘ دوسری شائستہ بتول اور تیسرا یہ خاکسار۔ بات اس وقت اسلامی اقدار کی چل پڑی۔ ظاہر ہے کرار حسین کی بیٹی کے ہاں پردے کی نوعیت ایرانی انداز کی ہے جہاں چہرے کا پردہ نہیں ہے اور عائشہ منور حسن چہرے کے حجاب والا پردہ کرتی میں اور مہتاب اکبرراشدی ان سب سے الگ تھیں۔ میں نے اس حوالے سے ہمت کر کے چند بنیادی سوال اٹھا دیے اور اللہ کی توفیق سے جواب بھی مناسب دے ڈالے جسے سب نے قبول کیا۔ ایک اور پی ٹی وی کے پروگرام میں عرض کیا میں عورتوں کی آزادی کا مخالف کیسے ہو سکتا ہوں۔ مری اپنی اہلیہ سائنس میں پی ایچ ڈی ہیں‘ امریکہ اور آسٹریلیا سے پڑھی ہوئی ہیں۔ ملک کے ایک بہت بڑے ادارے کی سربراہ ہیںجہاں زیادہ مرد کام کرتے ہیں۔ مجھے آپ کیا آزادی نسواں کا مطلب سمجھائیں گے۔ حاضرین سمجھدار تھے۔ میری بات سمجھ گئے‘ پھر بات کرنا آسان ہو گیا۔ مجھے یاد ہے کہ ابھی چند برس پہلے جب اس ملک میں ترقی پسندوں کا زور تھا۔ وہ لوگ خود کو پروگریسو کہتے۔ لبرل کہلانا بالکل پسند نہ کرتے تھے۔ ان دنوں دنیا میں خواتین کی آزادی کا بڑا چرچا تھا۔ جگہ جگہ تحریکیں چل رہی تھیں۔ ان میں بڑے مزے مزے کی باتیں تھیں۔ پاکستان میں بھی ’وومن لِب‘ یعنی عورتوں کی آزادی‘( لبرل ازم) کا نعرہ لگایا گیا تو ترقی پسند کہیں سے ڈھونڈ کر متبادل نعرہ لائے۔ غالباً چین سے یہ دستیاب ہوا۔ وہ کہتے تھے ہم ’’وومن لب ‘‘کے قائل نہیں ہم عورتوں کی نجات woman emancipationکے حامی ہیں۔ اس سے ہمیں بڑا حوصلہ ملا تھا۔ ترقی پسند تو فحاشی کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ ایسے میں انہیں منٹو تک سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ وہ کیسے عورتوں کی اس آزادی کے قائل ہو جاتے جو مغرب سے آتی تھی۔ مغرب میں بھی اس کی اپنی تاریخ ہے جو پہلے پہل کلیسا کے رویوں سے پھوٹی تھی۔ اس پر بہت کام ہوا ہے۔ میں نے ذاتی طور پر اسے رغبت سے کچھ نہ کچھ دیکھ رکھا ہے۔ تاہم اپنے عہد کی آزادی نسواں کی تحریکوں سے ہٹ کر جس چیز کو سنجیدگی سے فلسفیانہ سطح پر دیکھنا چاہیے وہ ژاں پاں سارتر کی شریک زندگی (بیوی نہیں کہ وہ دونوں شادی کے ارادے کے قائل ہی نہیں تھے) مادام سموں دی بوار کی کتاب ’’دوسری جنس‘‘ second sex ہے۔ ایک سنجیدہ بحث ہے‘ اگرچہ اس سے اختلاف ممکن ہے اور مجھے بھی ہے اسے آزادیٔ نسواں کی بائبل کہتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں تو شور اٹھتا آج امریکہ کے فلاں شہر میں تحریک نے نیا رخ اختیار کیا ہے۔ پھر معلوم ہوتا کہ اس کی لیڈر نے شادی کر لی ہے اور تحریک بیٹھ گئی ہے۔ مزید کیا لطیفے لکھوں۔ لوگ جمہوریت کے خلاف مقدمہ بناکر ۔۔۔۔۔۔۔کہ جمہوریت آئی تو لوگ جنسی آزادی مانگیں گے۔ ہم جنسیت کو جائز کرنا پڑے گا۔ صرف مردوں میں نہیں‘ عورتوں میں بھی۔ میں آپ کو ابھی سے بتا دیتا ہوں کہ ہمارا میڈیا اس میدان میں کودنے کی بھی تیاری کر رہا ہے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ ایک بات یاد رکھیے کہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس پر مشرق میں سرے سے بات ہی نہیں ہوتی۔ میں لکھ چکا ہوں کہ ہمارے ہاں یہ بحث کیسے چلی۔ قرۃ العین طاہرہ کو تو فی الحال رہنے دیجیے جن کا ذکر اقبال نے غالب اور حلاج کے ساتھ فلک مشتری میں کیا ہے۔ برصغیر میں بھی اس پر بہت بحث رہی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں حجاب کا مسئلہ تھا۔ ایک صاحب ممتاز علی تھے۔ انہوں نے اس پر کتاب لکھی اور اپنے مرشد سرسید احمد خاں کے پاس لے کر گئے۔ انہوں نے کتاب اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دی اور یوں گویا ہوئے کہ ممتاز علی ہم سے سلطنت گئی۔ حکومت گئی‘ تہذیب گئی‘ ایک یہ عورتیں ہماری تہذیب و معاشرت کا حسن ہیں‘ تم انہیں بھی ہم سے چھیننا چاہتے ہوں۔ ان کے بارے میں ایک دوسرا واقعہ ہے کہ اکبر الہ آبادی سے ان کا یارانہ تھا۔ وہ لاہور آئے اور ان کے گھر گھستے چلے گئے۔ زنان خانے میں شور مچ گیا۔ اکبر کو بلایا گیا۔ انہوں نے پوچھا یہ تم کیا کر رہے تھے۔ کہنے لگے جس بات پر عمل نہیں کر سکتے‘ اس پر بات مت کرو اور اگلی گاڑی سے واپس چل دیے۔ ہم کم ازکم ایک صدی سے مختلف مدارج سے گزرے ہیں۔ ہمارے بڑے بڑے مفکر‘ دانشور آزاد خیال سب بہت احتیاط سے چلے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اب سب کچھ تباہ کر دیا جائے یہ معاشرہ اور تہذیب ہماری اپنی قدروں کے ساتھ آگے بڑھے ہیں۔ تمہارے مغرب سے آئے ہوئے پلے کارڈ سے نہیں۔ ہمارا ادب دیکھ لو۔ ہم نے اس حوالے سے بھی کیا کیا بحثیں کی ہیں۔ وہ مصنوعی بحثیں نہیں جو این جی او ہمارے ہاں لے کر آتی ہیں۔ وہ چلنے کی نہیں۔ ان بحثوں اور ان رویوں کی ہمیں اٹھاکر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنا پڑے گا اور بات آگے بڑھانا پڑے گی۔ تاریخ اسلام کے عظیم مفکر صوفی شیخ الاکبر ابن عربی کی شہرہ آفاق کتاب فصوص الحکم کا آخری باب اس حدیث کے حوالے سے ہے کہ نماز‘عورت اور خوشبومری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ بعض لوگ اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں‘ مگر اسلام کے اس جید صوفی کا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑاس لئے واپس دنیا میں بھیجے جائیں گے کہ وہ شادی نہ کر سکے۔ صرف یہ اندازہ کیجیے‘ ہمارے ہاں عورت کا ذکر کس مقام پر آتا ہے۔ نماز اور خوشبو کے بیچ۔ ایک روحانیت کی انتہا۔ دوسری مادیت کا نقطہ عروج۔ زمانہ اس عورت کی تلاش میں ہے۔ مقام ادب ہے‘ وگرنہ مزید لکھتا۔