اقبالؔ کی وفات کے فوراًبعد سید سلیمان ندوی نے کہا: فلسفے اب اس سے نکالے جائیں گے۔ رہنمائی اب اس سے طلب کی جائے گی۔ ہو اگر خود گر و خودنگرو خودگیر خودی یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے احرار 1930ء کے عشرے میں بہت طاقتور تھے، احتجاج کے خوگر۔ ایک تحریک کا اعلان کیاتوپنجاب کے وزیرِ اعظم سرسکندر حیات نے مذاکرات کی پیشکش کی۔سید عطاء اللہ شاہ بخاری نہیں تب’’زندگی‘‘ کے مصنف چوہدری افضل حق امیر تھے۔ چوہدری صاحب نے ایوانِ وزیرِ اعظم جانے سے انکار کر دیا۔ وزیرِ اعظم احرار کے دفتر میں پیش ہونے پر آمادہ نہ تھے۔طے پایا کہ اقبالؔ کے ہاں ملاقات ہو گی۔ برسبیلِ تذکرہ چوہدری صاحب کی وصیت یہ تھی کہ پاکستان کی مخالفت نہ کی جائے مگر نیک نام اور سادہ اطوار عطاء اللہ شاہ بخاری مولانا حسین احمد مدنی سے اختلاف نہ کر سکے۔ لطیفہ یہ ہے کہ علامہ سے اجازت نہ لی گئی بلکہ اطلاع دینا بھی بھول گئے۔ ایک دن پیغام ملا کہ چوہدری افضل حق سے ملاقات کے لیے وزیرِ اعظم جاوید منزل تشریف لاتے ہیں۔ علّامہ کو ناگوار ہوا۔ وزیرِ اعظم سے پہلے چوہدری صاحب آن پہنچے۔ اس بے ساختہ انداز میں، جو ایسے میں ان کا شیوہ تھا اقبالؔ نے کہا: چوہدری!سوراں نو میرے کار کیوں بلایا ای۔ چوہدری صاحب نے جواب دیا: میں نئیں، سوراں نے بلایا اے۔ کہا: یہ میرا گھر ہے، سوّروں کا باڑہ نہیں۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ نے لکھا ہے: شا م کی محفل میں لطیفہ گوئی پر پابندی نہ تھی، خود اقبالؔ اس میں شریک ہو جاتے۔پیہم فکر و تدبر کے انہماک سے پیدا ہونے والی بوریت دور کرنے کے لیے۔ خواجہ نظام الدین اولیا کی طرح کہ نوافل، تلاوت اور اوراد و وظائف کے بعد تھک جاتے تو خوبصورت پتھر منگواتے۔ کچھ دیر ان پہ نظر کیا کرتے۔ ’’اقبالؔ کے آخری ایام‘‘ میں ڈاکٹر چغتائی نے لکھا ہے: آخری برسوں میں سختی سے تلقین کیا کرتے کہ سب لوگ مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں۔ صرف مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ ہی نہیں، اقبالؔ کے ایما پر قائدِ اعظم لندن سے لوٹ کر آئے تھے۔ڈاکٹر صاحب ہی کی روایت ہے کہ اقبالؔ کو پاکستان کے قیام کا پورا یقین تھا۔ دراں حالیکہ اس سے پہلے لفظ ’’پاکستان‘‘ کا حوالہ کم ہی کبھی دیا کرتے، جو چوہدری رحمت علی کی یادگار تھا۔ رفتہ رفتہ زمانہ اس لفظ سے مانوس ہورہا تھا۔ قراردادِ پاکستان منظور ہونے میں ابھی دو تین برس باقی تھے۔ ایرانی انقلاب میں ان کا کلام ہر پرچم اور ہر دل پہ لکھا تھا۔ وسطی ایشیا کے انقلاب میں ان کے کلام کا کردار روشن ہے۔ کشمیر کی تحریک میں ان کا اسم اور ان کے گیت فروزاں۔ عالمِ عرب، وسطی ایشیااور مشرقِ بعید کے مسلمان ممالک میں ان کی شخصیت اور کلام پر تحقیق عشروں سے جاری ہے۔عالمِ اسلام انہیں بھلا نہیں سکتا۔چراغ کی لو پھیلتی چلی جاتی ہے۔ امان اللہ خاں کی دعوت پر افغانستان تشریف لے گئے تو سید سلیمان ندوی ہمراہ تھے۔درجن بھر نظمیں اس سفر کی یادگا ر ہیں اور کتنے ہی دلچسپ واقعات، ایک مختصر تحریر میں جو سمٹ نہیں سکتے۔واپسی پر ندوی صاحب نے لکھا: غزنی میں ثنائی کے مزار پر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتے رہے۔ لوٹ کر آئے تو اس دن کا گداز ایک نظم میں ڈھلا ثنائی کے بحر میں، میں نے غوّاصی نہ کی ورنہ ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالہ افغانستان کے باب میں ان کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔آسیا یک پیکر آب و گلِ است۔ ملّتِ افغاں در ایں پیکر دل است۔ از فسادِ او فسادِ آسیا۔ از کشادِ او،کشادِ آسیا۔افغانستان ایشیا کا دل ہے۔ اس کا فساد ایشیا کا فساد، اس کا امن ایشیا کا قرار۔ کوئی سفر ایسا نہیں، جب شاعر کے دل میں ایک نیا جہان طلوع نہ ہوا ہو۔ہسپانیہ گئے تو واپسی پر لکھا: آبِ روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی دیکھ رہاہے کسی اور زمانے کے خواب عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں، جن کا نہیں کوئی نام اور یہ فرمایا کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد مری نظر نہیں سوئے کوفہ و بغداد پاکستان مراد تھا،پاکستان۔ حافظِ شیراز کے باب میں ایک کہانی کہی جاتی ہے۔ لکھنے کی کوشش کرتے مگر لکھ نہ پاتے۔ مشاعروں میں بھد اڑتی۔ ایک دن بابا کوہی کے مزار پر گئے اور فریاد کی: یارب!ایک مصرہ ء موزوں کے سوا میں تجھ سے کیا مانگتا ہوں۔ دروازہ کھل گیا اور وہ شاعری وجود میں آئی، جو ہمیشہ باقی رہے گی۔ از ما بجز حکایتِ مہر و وفا مپرس قصّہئِ سکندر ودارانہ خواندہ ایم مہر و محبت کے سوا کسی موضوع پر مجھ سے بات نہ کرو۔ سکندر و دارا کے قصے میں نے نہیں پڑھے۔گمان کہتاہے، ایسی ہی کوئی ساعت، شاید کوئی شب اقبالؔ پہ بیت گئی ہوگی۔ اس سے پہلے تو وہ ہندوستان کی عظمت کا گیت گارہے تھے۔ اے ہمالہ، اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں / چومتاہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں۔اور روایتی غزل۔ ہے حسینوں میں وفا نا آشنا تیرا خطاب اے تلوّن کیش! تو مشہور بھی، رسوا بھی ہے اب یہ ایک اور اقبالؔ تھا۔مومن اللہ کے نور سے دیکھنے لگا۔ اس کے ہاتھ اللہ کے ہاتھ بن گئے۔ اس کی نگاہ پروردگار کی نگاہ۔ درِ رسولؐ سے فیض پایا تو امر ہو گئے۔ ان کی وفات پر سید ابو الاعلیٰ مودودی نے لکھا:جس مغربی فلسفے کے دو جام پی کر لوگ بہکنے لگتے ہیں۔ مرحوم اسکے سمند رپیے بیٹھا تھا۔ جوں جوں وہ اس کی تہہ میں اترتا گیا، اس کا دل اور بھی مسلمان ہوتا گیا؛حتیٰ کہ قرآنِ مجید اس کے لیے شاہ کلید ( master key)ہو گیا، ہر دروازہ جس سے کھل سکتا۔روزِ ازل ابلیس نے پروردگار سے کہا تھا:تیرے بندوں کو میں گمراہ کروں گا۔اوپر سے، نیچے سے، دائیں سے، بائیں سے۔ فرمایا: مگر میرے مخلص بندے گمراہ نہ ہوں گے۔ اردو زبان پر ان کے احسانات شمار نہیں کیے جا سکتے۔صدیوں سے چلے آتے درباری اور نسوانی لہجے کو مردانہ وقار عطا کیا۔ یہ بجائے خود ایک مقالے کا موضوع ہے۔پھر ان کی حیران کن بے ساختگی۔ اس باب میں کوئی ان جیسا نہ تھا۔ کتنے ہی واقعات حافظے کی لوح پہ ابھر آئے ہیں۔قوم نے ملّا کے بارے میں ان کے افکار پہ غور کیا ہوتا تو دلدل کی نذر نہ ہوتی۔روایتی مولوی کے سب تیور بیان کر دیے۔ عجمی تصوف کے امراض بھی۔ فرشتہ نہیں، آدمی تھے۔سامعین کو فرصت ہوتی تو فلسفہ ء عقل و عشق اور تصوف کے باب میں ان کے افکار پر کچھ عرض کرنے کی جسارت کرتا۔ غزالیؒ کے بارے میں کہا جاتاہے کہ علمِ حدیث میں کچھ کمزور تھے۔ اس کے باوجود اپنے عہد ہی میں وہ امام مانے گئے اور ایک صدی تک ان کا پرچم سب سے بلند رہا۔اب بھی قائم اور برقرار ہے۔ اقبالؔ کا علم بھی ہمیشہ لہراتا رہے گا۔ وفات کے فوراًبعد سید سلیمان ندوی نے کہا: فلسفے اب اس سے نکالے جائیں گے۔ رہنمائی اب اس سے طلب کی جائے گی۔ ہو اگر خود گر و خودنگرو خودگیر خودی یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے (گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے سیمینار میں پڑھا گیا)