لاہور اور کابل کے درمیان کئی دہائیوں پرمشتمل تنائو کے ماحول نے نہ صرف ان دو مسلم مملکتوں کے امن اور اکانومی کو نقصان پہنچایاہے بلکہ خدانخواستہ یہی تنائو برقرار رہا تو مستقبل میں یہ مزید خرابیوں کاباعث بن سکتاہے۔جنوبی ایشیاء کے یہ دونوں مسلم ممالک اگر ایک دوسرے کوخلوص دل سے تسلیم کر کے باہمی برادرانہ تعلقات استوار کرنے کا تہیہ کرلیں توپھر قابل رشک حد تک یہ دونوں امن اور خوشحالی کاگہوارہ بن سکتے ہیں۔میں جب بھی اسلام آباد اور کابل کے حکمران طبقے کے بیچ ’’ مَن مَن اور تُوتُو‘‘ کی کیفیت دیکھتاہوں تو مجھے مرحوم محمد نادرشاہ افغان اورمرحوم ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال یاد آتے ہیں۔ نادرشاہ نے جس طرح لاہور کو اپنا دوسرا گھرسمجھاتھا اسی طرح اقبال کو بھی نہ صرف افغانوں سے بہت پیار تھا بلکہ اس درویش نے پورے ایشیاء کی خوشحالی اور امن کو افغان وطن کی خوشحالی اور امن سے نتھی کر دیا تھا۔ تھرڈ اینگلو افغان (1919ئ) وار کے نتیجے میں اور بعد کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے افغانستان متاثر ہوچکاتھا اور محمد نادرشاہ (1883-1933ء ) اسے اپنے پاوں پرکھڑا کرنے کیلئے مہمات چلارہے تھے۔ 1929ء میں افغانستان جاتے ہوئے لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر نادرشاہ کی اقبال سے ملاقات ہوئی تھی ۔ کہا جاتاہے کہ اس ملاقات کے دوران اقبال نے اپنے افغان بھائی نادرشاہ کے گھرکی کسمپرسی کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے اسے اپنی جیب سے افغانستان کی ترقی مہم کیلئے پانچ ہزار روپے عطیہ کیے تھے اور انہیں کہاتھاکہ ’’ آپ ایک بڑی مہم سر کرنے جا رہے ہیںلہٰذا اس فقیر سے یہ معمولی رقم اس مہم کیلئے قبول فرما لیجیے۔ اس موقع پر نادر شاہ آبدیدہ ہوگئے اور انہوں نے اپنے اس فقیر بھائی کے اس عطیے کر بڑے احترام سے قبول کیا۔ اقبال اس ملاقات سے قبل نادرشاہ کو اس وقت سے جانتے تھے جب وہ فرانس میں افغانستان کے سفیر تھے۔ مورخین کے مطابق اس عطیے کے علاوہ بھی اقبال نے کئی طریقوں سے افغانستان کی ترقی میں نادرشاہ کی مدد جاری رکھی۔لاہور ملاقات کے چار سال بعدتیرہ اکتوبر 1933ء کوجشن استقلا ل کے موقع پر نادرشاہ حکومت نے کابل میں یونیورسٹی کی تعمیر کے سلسلے میں جب ہندوستانی ماہرین تعلیم اور دانشوروں کی ضرورت محسوس کی تو اس مقصد کیلئے افغان حکومت نے ہندوستان سے ڈاکٹر اقبال ،سیدسلیمان ندوی اور سید راس مسعود (فرزندسرسیداحمدخان) کواپنے ملک آنے کی دعوت دی ۔اس دعوت کو نہ صرف ان حضرات نے قبول کیابلکہ اسے اپنے لئے فخربھی سمجھا۔ چندسفارتی مسائل کی وجہ سے اگرچہ ہندوستانی دانشوروں کا یہ وفد ’’ جشن استقلال‘‘ کے عین موقع افغانستان پہنچ نہ سکا تاہم آٹھ دس دن بعداکیس اکتوبر1933کو اقبال اور سیدراس مسعود پشاور سے کابل روانہ ہوئے جبکہ سید سلیمان ندوی کچھ مصروفیات کی وجہ سے 3 دن بعداس دورے پر روانہ ہوئے۔ مرحوم جاوید اقبال کے مطابق اقبال نے کابل روانگی سے قبل ایک بیان میں کہاتھا کہ ’’کابل میں نئی یونیورسٹی کا قیام اور ہندوستان کی مغربی سرحد پر اسلامیہ کالج پشاور کو یونیورسٹی کادرجہ دینے سے افغانوں کو بڑا فائدہ ہوگا۔ کابل کی مطبوعات میں چھپنے والے مضامین اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ نئی افغان نسل نت نئے علوم کو اپنے تمدن کے سانچے میں ڈالنے کی بہت متمنی ہیں، سو ہمارا فرض بنتاہے کہ ہم اس کارخیر میں ان کاہاتھ بٹائیں‘‘۔ 23 اکتوبر کو کابل پہنچے ‘ اقبال اور راس مسعود کو کابل کے شاہی مہمان خانے میں ٹھہرایاگیا۔اس سفر میںاقبال کے سیکرٹری بیرسٹر غلام رسول اور راس مسعود کے ساتھ انکے سیکرٹری پروفیسر ہادی حسن کے علاوہ علی بخش نامی خادم بھی ان کے ہمراہ تھے۔کابل میںیونیورسٹی کے قیام اور تعلیمی امور پر ہندوستانی علماء اور افغان حکام کے درمیان کئی نشستیں ہوئیں۔ قیام کابل کے چند روز بعداقبال اور راس مسعود کی ملاقات نادر شاہ سے ہوئی۔کہا جاتاہے کہ اس ملاقات کے دوران اقبال نے اپنے افغان دوست نادرشاہ کو قرآن مجید کا ایک نسخہ بطورتحفہ پیش کیا۔ معروف مورخ ظہیرالدین لکھتے ہیں کہ اس دوران جب عصرکی نمازکا وقت آیا تو نادر شاہ نے اقبال سے امامت کی درخواست کی لیکن اقبال نے یہ کہہ کر امامت کرنے سے معذرت چاہی ’’ نادر! میں آج تیری اقتداء میں نمازاداکرنا چاہتاہوں کیونکہ میں نے اپنی عمر ایک عادل بادشاہ کی اقتداء کی تمنا میں گزاری ہے ، آج جب خدا نے یہ موقع فراہم کیا تو کیا تُو مجھے اس نعمت سے محروم کرنا چاہتاہے‘‘؟ 26 اکتوبر کو سیدسلیمان ندوی بھی کابل پہنچ کر اپنے ساتھیوں سے آملے ۔ رات کو صدر اعظم سردار ہاشم خان کے ہاں کھاناتھا۔ سلیمان ندوی کے مطابق اس دوران مہمانوں اور میزبانوں کے بیچ مختلف مباحث پر باتیں ہوئیں۔ وزیر خارجہ سردار فیض محمد خان نے تاریخ افغانستان پر روشنی ڈالتے ہوئے پنجاب کی قدیم سلطنتوں سے اس کے تعلقات پر باتیں کیں ۔اقبال نے سیاست اور فلسفے کے مختلف پہلووں پر گفتگو کی جبکہ راس مسعود نے اپنے جاپانی اسفار کی روداد سنائی۔اگلے دن یعنی 27 اکتوبر کو جمعہ کی نمازپڑھنے کیلئے اقبال اپنے رفقا سمیت پل خشتی کی جامع مسجد گئے جہاں نادرشاہ بھی نماز پڑھنے آرہے تھے۔جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد مہمان واپس دارالامان پہنچے اور سردار فیض محمدخان ، اللہ نواز خان اور سرور خان جویہ کے ساتھ لنچ کیا۔ کابل میں مختلف شخصیات کیساتھ ملاقاتیں کرنے کے علاوہ ہندوستانی مہمانوں نے کئی تاریخی مقامات اور مزارات پرحاضری دی۔نادرشاہ کیساتھ اقبال کی آخری ملاقات وزیر خارجہ سردار فیض محمد خان کی معیت میں 29 اکتوبر کو قصردل کشاہ میں ہوئی جس میںہونیوالی گفتگوکا ریکارڈ ہنوز نایاب ہے ۔ 30 اکتوبر کی صبح سرورخان جویہ کے ہمراہ مہمان غزنی روانہ ہوئے ۔ غزنی میںایک روزہ قیام کے دوران انہوں نے مشہورزمانہ ولی اللہ حکیم سنائی اور سلطان محمودغزنوی اور کئی دوسرے اولیاء کے مزارات پرحاضری دی۔یاد رہے حکیم سنائی کا مزار غزنی میں ہے جس کی زیارت کیلئے اقبال پہلے ہی سے بیتاب تھے ۔سیدسلیمان ندوی رقمطرازہیں کہ ’’حکیم سنائی کے مزار پر حاضری دینے وقت ہم سب اس منظر سے بڑے متاثر ہوئے تاہم اس کا سب سے زیادہ اثر اقبال پرہوا۔ حکیم سنائی کے سرہانے کھڑے ہوکرقبال بے اختیار ہوگئے اور دیرتک زور زور سے روتے رہے‘‘۔ ہندی مسلمان مہمانوں کا یہ وفداگلے روزکی صبح غزنی سے آگے روانہ ہوکر دوپہر کو مقر پہنچا جہاں انکا پرتپاک استقبال کیاگیا اور سرکاری مہمان خانے میں انہیں کھانا کھلایاگیا۔سہ پہر کومقر سے نکل کریہ حضرات شام کو قلات غلزئی پہنچے اور وہیں پہ رات گزاری۔اگلی صبح یعنی یکم نومبرتھااور مہمانوں کا اگلا ہدف تاریخی قندہار تھا۔ (جاری ہے )