لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساتھی ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی عشق کی تیخ جگردار اڑا لی کس نے علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی شعر ثانی پہ قربان ہونے کو دل چاہتا ہے کہ دو مصرعوں میں حکیم الامت نے مسلمانوں کا المیہ بیان کر دیا۔ اس شعر میں وہی روح ہے جس کو ختم کرنے کے لئے انگریز نے کیا کیا جتن نہ کئے۔ اسی کے پس منظر میں وہ مصرع ہے جسے شیطان کی زبان سے اس کی شوریٰ میں کہلوایا ’’روح محمد اس کے بدن سے نکال دو‘‘اسی مقصد کے لئے انگریزوں نے اپنے پیرو کار یہاں پیدا کئے کہ کسی نہ کسی طرح وہ جہاد کی سپرٹ کو ختم کر دیں۔ ایسے ہی نہیں اقبال نے کہا تھا کہ صحبت پیرِروم سے مجھ پر ہوا یہ راز فاش۔ لاکھ حکیم سربجیب ایک کلیم سربکف‘ تبھی تو اس نے آہ بھر کر کہا کہ قافلہ حجازمیں ایک حسین بھی نہیں‘ یہی چیز کہ جو بیداری پیدا کرتی ہے۔اور مسلمانوں کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے اقبالؔ کو استحصالی قوتوں کے لئے ناپسندیدہ بناتی ہے اقبال نے ان کے افکار کے تو بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے۔ میں ایک خبر پڑھ رہا تھا کہ منگل کو مفکر پاکستان علامہ اقبال کا 82واں یوم وفات عقیدت و احترام سے منایا گیا۔ مجھے یہ خبر ایک کلیشے اور فارمیلٹی کے سوا کچھ بھی نہیں لگی اور میں مسکرا دیا۔ بھائی کیسی عقیدت اور کیسا احترام، ہم نے تو اپنے عظیم شاعر و مفکر کی یوم ولادت پر ہونے والی تعطیل بھی ختم کر دی اور پھر آنے والی تبدیلی سرکار بھی شیروںکے اس حکم کو تبدیل نہ کر سکی۔گویا ہم اپنے آقائوں کے حکم سے گریز نہیں کر سکتے۔ قصور اس کا یہی ہے کہ وہ درد کی دولت کو عام کرتا ہے وہ مسلمانوں کو گراں بار نیند سے جگاتا ہے وہ عظیم اسلامی روایات و اقدار کو زندہ کرنا چاہتا ہے۔ اس نے تو پورے مغرب کی اخلاقی برتری کا پول کھول کر رکھ دیا ان کی بنیاد جو کہ جمہوریت پر قائم ہے پر کہا: جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے اس نے تو ان کی تہذیب کے بارے میں پیش گوئی کر دی کہ وہ آپ اپنے ہاتھ سے خودکشی کرے گی کہ شاخ نازک پہ جو آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا۔ اس کی چشم رسا نے قائد کو ڈھونڈا اور ہمیں آزادی نصیب ہوئی۔ اس کے خواب نے پوری امت کوبیدار کیا تو قائد اس خواب کی تعبیر بن گئے۔ ہائے ہائے ہم نے کتنی آسانی سے اس کو فراموش کر دیا کہ جو ہماری پہچان اور شناخت بنا۔ ہمیں تو شاید احساس زیاں ہی نہیں اس کے مقام و مرتبے سے دنیا کے بڑے بڑے مفکر و فلاسفر تو آگاہ ہیں مگر ہم کند ذہن کوتاہ نظر لاعلم ہیں۔ اس کی دعا بھی ہم پر کارگر نہ ہوئی کہ اس نے کہا تھا مرا نور بصیرت عام کر دے ۔ عام لوگوں کو چھوڑیں ہمارا ایک اکڑ باز اور خود کو سقراط سمجھنے والا کالم نگار اٹھ کر کہتا ہے کہ اقبال اوسط درجے کا شاعر تھا۔ اس بوز نے اس جن کو ہاتھ ڈال دیا جس کے بارے میں فیض نے زہرہ نگاہ کو کہا تھا کہ اقبال چھت پر بیٹھا ہے اور ہم نیچے کھڑے ہیں۔ علی سردار جعفری جو کہ لیفٹ ونگ کے بھی سردار ہیں کہا کہ اقبال کی قرطبہ مسجد والی نظم اردو ادب کی سب سے بڑی نظم ہے۔ میں حوالے دیتا جائوں تو کالم ختم ہو جائے گا ہاں ایک اور مزیدار حوالہ لسانیات کے حوالے سے یاد آ گیا کہ اقبال نے لفظ بچوں بروزن فعوباندھا تو اہل زبان نے گرفت کی کہ یہ تو بچوں ہے تشدید کے ساتھ یعنی ’’فعلن‘‘ ’’فعو‘‘ نہیں۔ اقبالؔ نے اہل زبان شعرا میں سے تیرہ اسناد پیش کیں کہ جنہوں نے بچوں کو بروزن فعو باندھا تھا اور لکھا کہ اگر اعتراض کرنے والے مطمئن نہ ہوں تو اور اسناد بھی پیش کی جا سکتی ہیں میرے لئے حیران کن بات یہ تھی کہ جواب دیتے وقت اقبال کی عمر صرف 26سال تھی۔ اب میں اقبال کا مقام کیا بتائوں۔ میرے معزز قارئین ! اتفاق یہ ہے کہ کچھ دنوں سے میرے زیر مطالعہ ایک زبردست کتاب کلام اقبال میں مقامات ہے جسے مرتب کیا ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے ان کی اقبال کے حوالے سے کئی کتب ہیں اور یہ درویش ہمہ وقت لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتا ہے۔ چلتے چلتے ایک مشورہ ضرور دوں گا کہ وہ بے شک تیزی سے کام کریں مگر پروف کا خیال ازحد ضروری ہے کہ شعر کے معاملے میں ایک نقطہ بندے کو محرم سے مجرم بنا دیتا ہے یہ کتاب کئی حوالوں سے بہت مفید ہے کہ اقبال کے کلام میں جن مقامات کا تذکرہ ہے ان مقامات کا تعارف اور تفصیل بیان کر دی گئی ہے۔ گویا ایک انسائیکلو پیڈیا سامنے آ جاتا ہے اور اس سے اقبال کا تبحرعلم اور دنیا کے جغرافیہ سے واقفیت سامنے آتی ہے ان مقامات کے ساتھ وہ اشعار بھی لکھ دیے گئے ہیں۔ گویا کام دو آتشہ ہو گیا ہے شعروں کے پس منظر کو بھی اس طرح اجاگر کر دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر پہلا ذکر ابی سینا کا ہے مسلمانوں نے شمال مشرقی افریقہ کے صحرائوں میں فتوحات کے پرچم لہرائے۔ ابی سینیاکی پوری تاریخ دی ہے پھر اقبال کے شعر جو انہوں نے 18اگست 1935ء کو تحریر کیے! یورپ کے کرگسوں کو نہیں ہے ابھی خبر ہے کتنی زہرناک ابی سینیا کی لاش ہونے کو ہے یہ مردہ دیرینہ قاش قاش تہذیب کا کمال شرافت کا ہے زوال غارت گری جہاں میں ہے اقوام کا معاش ہر گرگ کو ہے برّہِ معصوم کی تلاش اے وائے آبروئے کلیسا کا آئینہ روما نے کر دیا سر بازار پاش پاش پیر کلیسا کی یہ حقیقت ہے دلخراش آپ اس کتاب کو جو کہ 336صفحات پر مشتمل ہے پڑھیں تو علم سے مالا مال ہو جائیں گے۔آپ پر تاریخ آشکار ہو جائے گی دنیا کے مقامات اور ان سے متعلق مسلمانوں کے کارہائے نمایاں عیاں ہو جائیں گے۔ یہ جو اہل یورپ ہیں ہم سے زیادہ اقبال کو جانتے ہیں کہ وہ دانش فرنگ کی قلعی کھولتا ہے: خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف ڈاکٹر ہارون رشید کو داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے حوالے ڈھونڈنے کے لئے شب و روز عرق ریزی کی ہے اور ان سے متعلق رشحات تحریر کئے ہیں اقبال شناسی ایک الگ سے شعبہ بن چکا ہے۔ واقعتاً اقبال ایک فرد نہیں ایک مکتب ہے اصل میں اس عاشق رسولؐ کی توانائیوں اور صلاحیتوں کا مرکز قرآن و سنت ہے جس کی وسعتوں گہرائیوں اور گیرائیوں کی کوئی انتہا نہیں۔ اس نے ایسے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ وہ مسلمانوں میںتحرک اور ولولہ پیدا کرنا چاہتا ہے کہ اسلام کا مطمع نظر اور مقصد یہی تحرک ہے کہ جسے زندگی کہتے ہیں جمود جہاں موت ہے اس کی میان خالی ہے اس میں تلوار ہونا چاہیے تھی تو کل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھو اپنا۔