موسم خزاں تو اب آیا ہے مگر ہماری ملکی سیاست پر ایک عرصے سے پت جھڑ کے سائے ہیں۔ اب تو اس ملک کے عوام نے یہ پوچھنا بھی چھوڑ دیا ہے کہ بہار کب آئے گی؟ ملک سے سیاسی حالات جب بھی دگرگوں ہونے لگتے ہیں۔ اقتدار کی ہوس جب سیاستدانوں سے آنکھوں کا نور چھین لیتی ہے۔ جب ملک کو لوٹنے والے ملک کے مہربان ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ تب اس قلمکار کو اکثر یہ خیال آتا ہے کہ اگر موجودہ حالات میں علامہ اقبال ہوتے تو وہ کیا سوچتے اور کیا بولتے؟ کس قسم کے اشعار لکھتے؟ اقبال کی سوچ کس قدر بلند ہے اور ہمارا سیاسی کلچر کتنا نیچ اور پستی میں پڑا ہوا ہے۔ کیا علامہ اقبال نے اس ملک کا خواب دیکھا تھا؟ میں جیوگرافی نہیں بلکہ سماجیات اور سیاست کے بارے میں سوال پوچھ رہا ہوں۔ جب بھی کسی غلام ملک میں آزادی کی تحریک ابھرتی ہے تواس ملک کے شاعر بھی آزادی پسند اشعار تخلیق کرتے ہیں۔ یہ بہت عام بات ہے۔کیا اقبال کی شاعری اس روایت کی راہ پر چلتی نظر آتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ کیوں کہ جو شاعری آزادی کے لیے لکھی جاتی ہے وہ آزادی ملنے کے بعد اپنی معنی کھو دیتی ہے۔مثال کی طور پر جن روسی شعراء نے زار کی بادشاہی سے نجات حاصل کرنے کے لیے اشعار لکھے؛ وہ انقلاب کے دوراں تو بہت چمکے اور انقلاب آنے کے فورا بعد انہیں پیار اور محبت سے یاد کیا گیا۔ انہیں خراج تحسین پیش کیے گئے۔ مگر پھر حالات بدلے تو لوگ ان شاعروں کی شاعری بھی بھول گئے۔ اپنے دور کی نمائندگی کرنے والے شاعروں کے ساتھ یہ کچھ ہوتا ہے۔ اگر علامہ اقبال محض آزادی پسند شاعر ہوتے تو آج ہم انہیں بھول جاتے۔ مگر کلام اقبال ایک ایسا نظریہ ہے جس پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ وہ نظریہ تب تک ہمارے دلوں اور دماغوں میں گردش کرتا رہے گا جب اقبال کا ایک ایک لفظ اپنی حقیقی منزل نہیں پاتا۔ اس ملک میں حقیقی آئین اور منشور علامہ اقبال کا کلام تھا۔ مگر ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے سوچا کہ اگر اقبال کے کلام کی کسوٹی پر انہیں پرکھا گیا تو وہ ابتدائی مرحلے میں ہی ناکامی سے دوچار ہوجائیں گے۔ اس لیے انہوںنے کوشش کی کہ اقبال اور پاکستان کے عوام کا رشتہ قائم نہ ہو پائے۔ان کا خوف غلط اور غیر حقیقی نہ تھا۔ وہ اچھی طرح سے جانتے تھے کہ اگر کلام اقبال اس ملک کے عوام کی دل وہ نظر میں سما گیا تو پھر اقتدار پرست سیاستدان تخت پر نہیں بلکہ تاریخ کے ڈسٹ بن میں نظر آئیں گے۔ کیوں کہ علامہ اقبال جن معیارات کی بات کرتے ہیں،ان کے حوالے سے اگر ہم ملکی سیاستدانوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں وہ بونے نظر آتے ہیں۔ اقبال کا کلام تو مستی اور ہستی کے درمیان بہتا ہوا دریا ہے۔جب بھی کسی شخص کے دل میں علامہ اقبال کے افکار جمع ہوجاتے ہیں تب اس کی کیفیت اقبال کے ان اشعار جیسی بن جاتی ہے: پریشاں ہوکے میری خاک آخر دل نہ بن جائے جو مشکل اب ہے یارب پھر وہی مشکل نہ بن جائے علامہ اقبال کی شاعری میں تو سکوت کا تصور ہی نہیں۔ علامہ اقبال کی شاعری تو مسلسل تحرک ہے۔ اس لیے اقبال منزل کے بات نہیں کرتے۔ اقبال کبھی نہیں کہتے ہیں ہم منزل حاصل کریں گے۔ اقبال کی شاعری منزل پانے کا نقشہ نہیں ہے۔ اقبال کی شاعری تو کبھی نہ ختم ہونے والا سفر ہے۔ اقبال جب کسی مقام پر ٹھہرتاہے تب بھی انہیں ماضی کے مسافروں اور ان کے قافلوں کی یاد آتی ہے۔ آگ بجھی ہوئی ادھر؛ ٹوٹی ہوئی طناب ادھر کیا خبر اس مقام سے گذرے ہیں کتنے کارواں جب میں نے روزنامہ 92 میں کالم لکھنے کا فیصلہ کیا تو میں نے کالم کے عنوان کے لیے کلیات اقبال کو کھولا اور مجھے اس میں مسلسل سفر نظر آیا۔اس لیے میں نے اپنے کالموں کے لیے اقبال کے ان الفاظ کا انتخاب کیا کہ ’’لالہ صحرائی‘‘ اقبال اس صحرا کے لالہ سے پوچھتے ہیں: منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی اگر منزل اقبال کی معشوقہ ہوتی تو وہ ’’ٹیپو سلطان کی وصیت‘‘ میں یہ کیوں لکھتے؟ تو رہ نورد شوق ہے ؛ منزل نہ کر قبول/لیلی بھی ہم نشین ہو تو محمل نہ کر قبول علامہ اقبال منزل کے بات نہیں کرتے۔وہ راستے کی بات کرتے ہیں۔ وہ چلنے پر زور دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں رک جانا موت ہے۔ زندگی چل چلاؤ ہے۔ علامہ اقبال کی شرائط آسان نہیں ہیں۔ ان کی ہر شرط شعلہ ہے، شرر ہے۔ اس لیے وہ امت کے ہر نوجوان کو یہ دعا دیتے ہیں: خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں ایسی رائے کون دے سکتا ہے سوائے اقبال کے!!علامہ اقبال عام فرد کے لیے بھی بلند شرائط رکھتے ہیں۔ اگر وہ عام افراد کے لیے اتنی کڑی شرائط رکھتے ہیں تو قومی سیاستدانوں کے لیے ان کے معیارات کس قدر مشکل ہونگے؟قوم کو کس لیڈر میں یہ خوبیاں نظر آتی ہیں۔ کسی لیڈر میں مکمل طور پر تو کیا جزوی طور پر بھی یہ میر کارواں والا حسن موجود نہیں۔ کس لیڈر کی نگہ بلند ہے؟ کس لیڈر کی بات من موہ لیتی ہے؟ کس لیڈر کی جان سوز سے بھری ہوئی ہے؟ اقبال فرماتے ہیں کہ قومی رہنما کا اصل ’’رخت سفر‘‘ یہ تین خوبیاں ہیں۔ مگر ہمارے سیاستدان تو اربوں کھربوں کے خواب دیکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں بڑا لیڈر وہ ہے جس کے پاس اپنے جہاز اور ہیلی کاپٹر ہوں۔ وہ لیڈر جو ملک اور قوم کو لوٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ جب ان پر قانون کا ہاتھ پڑتا ہے تب ان کے لیے جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ وہ جمہوریت پسند ہیں؟ کیا ان کو معلوم ہے کہ جمہوریت میں کون سے نقص ہیں؟ اور وہ کس طرح ختم ہو سکتے ہیں؟ وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ علامہ اقبال نے اقتداری بازار میں بکنے والی جمہوریت کے بارے میں کیا کہا تھا؟ انہوں نے کہا تھا: ’’اس راز کو اک مرد افرنگ نے کیا فاش/ہر چند کہ دانااسے کھولا نہیں کرتے/جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں/بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے