سپر طاقتوں کا سب سے بڑا تکبر یہ ہوتا ہے کہ یہ خود کو "ناقابل شکست" سمجھتی ہیں۔ جن لوگوں نے سوویت یونین کا دور دیکھ رکھا ہے انہیں یاد ہوگا کہ اس سپر طاقت کی فوج سے متعلق یہ جملہ عالمی سطح پر زبان زد عام تھا "ریڈ آرمی کبھی واپس نہیں ہوتی" اس جملے کا مطلب یہ تھا سرخ فوج ناقابل شکست ہے، وہ اپنی تاریخ کے دوران جب بھی کسی علاقے میں گھسی مشن مکمل کرکے چھوڑا۔ ریڈ آرمی کی اس تاریخ کے سبب سوویت فوج کا مغرب میں بھی شدید خوف پایا جاتا تھا۔ مگر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ وہ ناقابل شکست سرخ فوج 1979ء میں افغانستان میں بھی داخل ہوگئی۔ یہ فوج چونکہ چلغوزوں یا قندھاری انار کی تلاش میں نہ آئی تھی بلکہ اسے گرم پانیوں تک سوویت یونین کو پھیلانے کا ٹاسک ملا تھا اور یہ گرم ساحل پاکستان میں تھا سو ہمارے سرخے بھی کابل میں جا بیٹھے کہ ہم تو اب پاکستان سرخ ٹینکوں پر بیٹھ کر جائیں گے۔ لیکن ہوا یہ کہ اگلے پانچ سالوں میں افغان مجاہدین نے سرخ فوج کی اس تسلی سے طبیعت صاف کی کہ سوویت یونین تاریخ میں پہلی بار "سرخ فوج کی واپسی" کا طالب ہوا۔ اور طالب بھی ایسا کہ 1986ء میں جنیوا مذاکرات کے دوران دھمکی دے ڈالی کہ اگر معاہدے پر فوری دستخط نہ ہوئے تو وہ کوئی معاہدہ کئے بغیر بھی افغانستان سے فرار ہوجائے گا۔ یہ وہ موقع تھا جب سوویت یونین اور امریکہ کے مابین درپردہ گٹھ جوڑ ہوا۔ اس کا گٹھ جوڑ کا نتیجہ پاکستانی وزیر خارجہ زین نورانی کے جنیوا معاہدے پر دستخط کی صورت ظاہر ہوا۔ سوویت فوج افغانستان سے نکل گئی اور دنیا انگلیاں دانتوں میں دبائے یہ عجیب و غریب تماشا دیکھنے لگی کہ امریکہ افغان مجاہدین کی مدد سے ہاتھ کھینچ کر ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کو مالی امداد دینے لگا۔ سبب اس کا یہ تھا کہ امریکہ کو سوویت فوج کی واپسی تو مطلوب تھی لیکن مجاہدین کی حکومت کا قیام اور اس کا استحکام اسے کسی صورت قبول نہ تھا۔ نتیجہ خانہ جنگی کی صورت نکلا جو عالمی طاقتوں کے مفاد میں تھا۔ سرخ فوج افغانستان سے نکلی تو کسی خوار عاشق کے ناتمام ارمانوں کی طرح کیمونسٹ بلاک کی ہر گلی سے نکلی۔ دنیا کی سب سے بڑی سپر طاقت سوویت یونین تحلیل ہوا اور پورا مشرقی یورپ آزاد ہوا۔ دیوار برلن زمیں بوس ہوئی اور یوگوسلاویہ کے بطن سے بوسنیا نام کا اسلامی ملک نکل آیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کا سیاسی ہی نہیں جغرافیائی نقشہ بھی تبدیل ہوگیا۔ ایسے میں کابل میں بیٹھے ہمارے کچھ قوم پرست زرد شکلیں لئے سارا دن ٹی وی پر کیمونزم کی بربادی کی خبریں دیکھتے اور جب شام ڈھلتی تو کابل کی ان اداس شاموں میں ایک دوسرے سے پوچھتے "لالہ ! وس بہ سہ کیگی ؟" (لالہ ! اب ہمارا کیا بنے گا ؟) سوویت یونین کی تحلیل ایسا واقعہ تھا جس کی توقع اسلام آباد سے لے کر واشنگٹن تک کسی کو بھی نہ تھی۔ اس سے متعلق کسی بھی قسم کی پیشنگوئی تو کجا امکان تک کہیں زیر بحث نہیں آیا تھا۔ خیال یہی تھا کہ سرخ فوج کی افغانستان سے واپسی ہوجائے گی اور وہ اپنی دگرگوں معیشت کو سنبھالنے پر توجہ مرکوز کردے گا اور اس نازک صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ ایٹمی ہتھیاروں کی کمی جیسے منصوبوں پر اس کے ساتھ معاملات آگے بڑھائے گا۔ لیکن افغانستان کی شکست کے نتیجے میں کیمونسٹ بلاک میں عوامی سطح پر سوویت یونین اور اس کی پٹھو حکومتوں کے خلاف لاوا پھٹا تو اس کے نتیجے میں امریکہ کی تو گویا لاٹری نکل آئی۔ اس نے پہلے نیو ورلڈ آرڈر کی بات کی اور اگلے مرحلے میں اکیسویں صدی کو "امریکہ کی صدی" قرار دے دے ڈالا۔ اب وہ دنیا کی "واحد سپر طاقت" کا سٹیٹس انجوائے کر رہا تھا۔ اس کا تکبر اس حد تک بڑھ گیا کہ مختلف ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے اپنے فیصلے سنانے لگا۔ ایسے میں نائن الیون ہوا یا کرایا گیا تو اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی فوج افغانستان لے آیا، تاکہ ابھرتی عالمی طاقت چین کی شہ رگ تک رسائی ہوسکے۔ چین کے لئے وہ "ساؤتھ چائنا سی" تنازعے کی صورت اس کی واحد آبی گزرگاہ کو پہلے ہی خطرات سے دوچار کئے ہوئے تھا۔ اب افغانستان میں بھی وہ آکر بیٹھ گیا اور وہاں آتے ہی چین کے لئے بے پناہ اہم پاکستان کی بھی گردن ناپنے لگا۔ اس کے فوجی اڈوں پر ٹی ٹی پی سے لگاتار حملے کروا کر اس تاثر کو بھی پختہ کرنا شروع کردیا کہ پاکستان تو اپنے فوجی اڈے محفوظ رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اور ایٹمی ہتھیار فوجی اڈوں پر ہی ہوتے ہیں لھذا یہ ہتھیار غیر محفوظ ہیں۔ سو لازم ہے کہ امریکہ انہیں اپنی تحویل میں لے کر "محفوظ" بنا لے۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے حملوں کے ساتھ ہی پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے غیر محفوظ ہونے کا پروپیگنڈا بڑے زور و شور کے ساتھ شروع کریا گیا جس میں اس کے بھاڑے کے پاکستانی "لبرل دانشوروں" نے بھی سوشل میڈیا کی مدد سے خوب حصہ ڈالا مگر پھر ایک بہت بڑا "مگر" آگیا، وہی مگر جس کا سامنا سوویت یونین کو بھی کرنا پڑا تھا۔ ہر سپر طاقت کی طرح امریکہ کے لئے بھی افغانستان لوہے کا چنا ثابت ہوگیا۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نعمان بخاری نے اقبال کے شعر کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، 2002ء میں اس شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے وائس آف امریکہ نے طنزاً کہا تھا ’’چلو ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال کے یہ بے تیغ سپاہی کب تک امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ لڑ سکتے ہیں‘‘ نعمان بخاری کا یہ حوالہ یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت پر حملہ آور امریکہ غرور کی کس انتہاء پر تھا "مگر" 2008ء میں اسے بخوبی اندازہ ہوگیا کہ اقبال کا بے تیغ مومن اکیسویں صدی کی پہلی عالمی کرامت ظاہر کرنے کو ہے۔ افغانستان اپنی روایت دہرانے کو ہے اور اس کے کوہسار پھر سے ایک سپر طاقت کو نگلنے کو ہیں۔ اور پھر شروع ہوا کبھی پاکستان پر دباؤ، کبھی کھلی دھمکی تو کبھی طالبان سے مذاکرات کے لئے منتوں ترلوں کا دور۔ اس کے جو 44 اتحادی اکیسویں صدی کو امریکہ کی صدی بنانے اس کے ساتھ افغانستان آئے تھے وہ ایک ایک کرکے پتلی گلی سے نکل لئے۔ آج امریکہ اقبال کے بے تیغ سپاہیوں سے محفوظ انخلا کے لئے مذاکرات کر رہا ہے اور اشرف غنی کی حیثیت اس پورے منظر میں فی الحال صرف تماشائی کی ہے۔ اس پوری صورتحال میں امریکہ کی حد سے زیادہ "خوشی" ایک سوالیہ نشان ہے۔ اقبال کے بے تیغ سپاہیوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ امریکہ کی تمامتر دلچسپی اپنی گردن چھڑانے میں ہے۔ اگر عبوری سیٹ اپ پر پیش رفت ہوئے بغیر ہاتھی اپنی گردن چھڑا گیا تو وہ کابل میں موجود اپنے پٹھوؤں کی مدد سے افغانستان کو ایک بار پھر خانہ جنگی کی جانب دھکیلنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ یہ خانہ جنگی نہ تو اقبال کے بے تیغ سپاہی کے مفاد میں ہے اور نہ ہی پاکستان کے۔ اشرف غنی کوئی سٹیک ہولڈر نہیں ہے۔ اقبال کے بے تیغ سپاہیوں کو افغانستان کے سٹیک ہولڈرز کو فوری اعتماد میں لینا ہوگا تاکہ امریکہ کی شکست پر مہر تصدیق ثبت ہونے کے ساتھ ساتھ محفوظ انتقال اقتدار کی صورت بھی قائم ہو۔