وفاقی مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے مالی سال 2018-19ء کی اقتصادی سروے رپورٹ پیش کرتے ہوئے معاشی استحکام اور اداروں کی بہتری کے لیے 7نکاتی حکمت عملی کا اعلان کیا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں اپنے عوام کو ملکی اقتصادی صورتحال سے با خبر رکھنے کے لیے اقتصادی سروے رپورٹس جاری کرتی ہیں۔ وطن عزیز میں کہنے کو تو یہ روایت موجود ہے مگر بدقسمتی سے ماضی کی حکومتیں قومی آمدن اور اخراجات کے حقیقی اعداد و شمار عوام سے چھپاتی رہی ہیں۔سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرض حاصل کر کے ڈالر کی قدر کو مصنوعی طریقے سے کم کرنا اس کی مثال ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ بیرونی قرضوں کو ملکی معیشت کے استحکام کے لیے استعمال کرنے کے بجائے مل بانٹ کر کھانے کا چلن رہا ۔ سابق حکومت کے31ہزار ارب روپے بھاری سود پر قرض حاصل کرنے سے اس کی تائید ہوتی ہے جس پر 3ہزار ارب روپے سود پاکستانی قوم کو ادا کرنا ہوگا۔ قوم کے ساتھ اس سے بڑھ کر زیادتی اورکیا ہو سکتی ہے کہ دس برسوں میں برآمدات میں اضافہ پر توجہ نہ دی جس سے 10برس تک ڈالر کمانے میں اضافہ کی شرح صفر رہی۔ وزیر خزانہ کا یہ کہنا بجا ہے کہ موجودہ حکومت معاشی استحکام کے لیے سخت اقدامات پر مجبور ہے۔ بہتر ہو گا حکومت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کا بھی احساس کرے اور بلواسطہ ٹیکس کے بجائے برا ہ راست ٹیکس پر توجہ دے تا کہ غریب آدمی کم سے کم متاثر ہو۔