وزیراعظم عمران خان کے فی البدیہہ خطاب سے ایک نئی تاریخ رقم ہوئی وہ اسلام اور کشمیر پرایسابولے کہ ہرایک دنگ رہ گیا۔ عمران خان نے جب اپنے خطاب میں کہاکہ ا نتہا پسند اسلام یا معتدل اسلام جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور اسلام صرف ایک ہے جو ہمارے نبی محمدرسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تویواین سے لیکربھارت تک لاالہ الا اللہ کی اس للکارسے کھلبلی مچ گئی۔انہوں نے مسئلہ کشمیرکوانتہائی موثراوراحسن اندازمیں دنیاکے سامنے پیش کیا۔ پورے دلائل کے ساتھ اقوامِ عالم کے ضمیر کوجھنجھوڑا اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں جنم لیتے غیر معمولی انسانی المیے کی جانب توجہ مبذول کرواکے صاف الفاظ میں کہہ دیاکہ مسئلہ کشمیر دو ملکوں کے مابین کوئی معمولی معاملہ نہیںبلکہ یہ اہل کشمیر کے لئے زندگی اورموت کامسئلہ ہے ۔ اگر عالمی برادری نے مداخلت نہ کی تو دو جوہری ملک آمنے سامنے ہوں گے اور دنیا اس جنگ کے اثرات سے بچ نہ پائے گی۔وزیراعظم عمران خان کی یہ وارننگ ہر گز جذباتیت نہیں بلکہ عین حقیقت ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کہا کہ میری اس بات کو کوئی صرف دھمکی نہ سمجھے بلکہ یہ حقیقت ہے ۔ بلاشبہ کشمیر کی صورتحال کو لے کر تصادم کے خدشات کو نظر انداز کرنا جہالت ہے اور جب دو جوہری ملکوں میں تصادم ہوجائے توروایتی ہتھیاروں سے شروع ہو کرایٹمی ہتھیاروں ہی پر یہ لڑائی ختم ہوگی ۔ وزیر اعظم پاکستان نے اپنے خطاب میں ببانگ دہل کہاکہ اگربرطانیہ میں80 جانور بھی بند ہوتے تو شور مچ جاتا، چہ جائیکہ کشمیر میں 80لاکھ انسان بند ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں ایک لاکھ افراد اپنی جان دے چکے ہیں، کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حقوق نہیں دیئے جا رہے، افسوس ہے کاروبار کو انسانیت پر فوقیت دی جا رہی ہے۔دنیا نے حالات جان کر بھی کچھ نہیں کیا کیونکہ بھارت ایک ارب سے زیادہ کی منڈی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ہٹتے ہی خون بہنے کا خدشہ ہے، مقبوضہ کشمیرمیں لوگوں کو گھروں میں بند کرکے کیا حاصل کیا جائے گا؟کرفیو ہٹتے ہی کشمیری سڑکوں پر آئیں گے اور بھارتی فوج ان پر گولیاں برسائے گی۔ انہوں نے وارننگ دی کہ بھارت کے مسلسل مظالم سے کشمیرمیںایک اور پلوامہ ہوسکتا ہے؟پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ 500عسکری کنٹرول لائن پر ہیں،9لاکھ بھارتی فوجیوں کے ہوتے ہوئے 500عساکر بھیج کر کیا چاہتے ہیں؟ان کاکہناتھا کہ اسلامی دہشت گردی کا الزام آتے ہی دنیا انسانی حقوق بھول جاتی ہے، بھارت پاکستان پر اسلامی دہشت گردی کا الزام لگانا چاہتا ہے،بھارت کے پاس کچھ باقی نہیں، کرفیو ختم ہوتے ہی پاکستان پر الزام لگایا جائے گا۔مودی کیوں نہیں سوچتے کروڑوں بھارتی مسلمان کیا سوچ رہے ہیں، بھارتی مسلمان شدت پسند بنتے ہیں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے،الزام ہم پر آئے گا، ایک ارب 30 کروڑ مسلمان دنیا بھر میں کشمیریوں پر مظالم دیکھ رہے ہیں،دنیا بھر کے مسلمان دیکھ رہے ہیں کشمیریوں پر صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ظلم ہو رہا ہے،اگر صرف 8لاکھ یہودی بند ہوتے تو دنیا کے یہودیوں کا ردعمل کیا ہوتا،کیا مسلمان باقی مذاہب کے افراد سے کمتر ہیں؟اگر کشمیر میں خون بہے گا تو مسلمان شدت پسندی کی طرف جاسکتے ہیں،میں کشمیر میں ہوتا اور 55دن گھر میں بند کر دیا جاتا،میری خواتین سے زیادتی ہوتی تو کیا میں چپ بیٹھتا،کیا میں ذلت کی زندگی گزارتا،میں بھی بندوق اٹھا لیتا،کوئی حملہ ہوا تو پاکستان پر الزام لگے گا اور 2 ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے آ جائیں گی،1945ء میں اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد ایسی صورتحال کو روکنا تھا، اگر پاک بھارت میں روایتی جنگ شروع ہوتی ہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ایک چھوٹا ملک لڑتا ہے تو اس کے سامنے دو راستے ہیں، ہتھیار ڈالیں یا آخری سانس تک لڑیں ،ہم آخری سانس تک لڑیں گے، جب آخری سانس تک لڑیں گے تو نتائج کہیں زیادہ بھیانک ہوسکتے ہیں۔ جناب عمران خان نے اقوام عالم کو یاد دلایا کہ یہ ادارہ یعنی اقوام متحدہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا اس نے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے کا وعدہ کیا تھا یہ وعدہ پورا ہونا چاہیے۔ اقوامِ عالم پر اچھی طرح ثابت ہے کہ فلسطین میں ایک قوم کی قومیت کو پامال کرنے، اسے غلام بنانے، اس کے حقِ خودارادیت کو پسِ پشت ڈالنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ ہمارے لیے تو ہمارے دین کا بھی یہی حکم ہے کہ ظلم نہ تو کرو اور نہ ہی برداشت کرو! وزیراعظم نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں پچھلے 72 برسوں سے ظلم ہورہا ہے۔ اس کے خلاف آواز اٹھانا، اس کو روکنے کے لیے ہر ممکنہ اقدام کرنا ،ہمارا دینی فریضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سب سے پہلے مسلم ممالک کی طرف دیکھتے ہیں کیونکہ ظلم کے خلاف ہر ممکنہ راست اقدام اٹھانا ان کے لیے بھی ویسے ہی دینی فریضہ ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کا اقوامِ متحدہ میں خطاب کشمیرسے پاکستان تک سب کے دل کی آواز تھی اور بہت بڑی بات ہے یہ آواز پورے زور سے اقوام عالم تک پہنچ گئی ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنے خطاب میں ناموس رسالت کے تحفظ پربڑی دلسوزی کے ساتھ گفتگوکی اوراس طرح چاردانگ عالم اسلام کے وقارکوبلندکیا۔انہوں نے اپنے خطاب میں کہاکہ نائن الیون کے بعد اسلامو فوبیا میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا، حجاب کرنے والی مسلم خواتین کو کئی ممالک میں مسئلہ بنا دیا گیا۔کچھ مغربی ممالک کے سربراہوں نے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا، اس لیے اسلامو فوبیا بڑھا، اسلام وہی ہے جو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا،کوئی بھی شخص کیسے فیصلہ کرسکتا ہے کہ انتہاپسند اور معتدل مسلمان کون ہے؟اسلاموفوبیا مسلم ممالک اور مسلمانوں میں تکلیف کا سبب ہے، مسلمانوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے اور اس سے انتہاپسندی بڑھتی ہے، اقوام عالم کو اب اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلم سربراہوں نے بھی اسلاموفوبیا ختم کرنے پر بات نہیں کی۔ان کاکہناتھاکہ مغرب میں سوچا گیا کہ اسلام آزادی اظہار کی اجازت نہیں دیتا،مغرب میں مخصوص طبقات جان بوجھ کر اسلام کے خلاف پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔مغرب میں اسلام کے بارے میں عجیب چیزیں سنیں،کہا گیا کہ اسلام خواتین کی آزادی کے خلاف ہے،ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ اسلام اقلیتوں کے خلاف ہے۔حالانکہ یہ تاثرسرے سے ہی غلط ہے کیونکہ ہمارے نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پوری انسانیت کے لیے مثال ہے۔