سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ جناب انتونیو گوتریس نے پاکستان اور بھارت کو تنازع کشمیر کے حل کے لئے سنجیدہ مذاکرات شروع کرنے کی شرط پر ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ نئے سال کی پہلی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ کشمیر طویل مدت سے حل طلب چلا آ رہا ہے اور اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایل او سی پر کشیدگی کا خاتمہ اور انسانی حقوق کا احترام ضروری ہے۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے تنازع کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ تنازع کشمیر اقوام متحدہ میں سنہ 1948 میںبھارت کے وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو لے کر گئے تھے جب کشمیریوں کی منشا نظر انداز کر کے جموں و کشمیر کے حکمرانہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کا اعلان کر دیا تھا۔اس کے بعد تقریباً 23 برسوں میں یعنی سنہ 1971 تک اقوام متحدہ نے 17 قراردادیں منظور کیں اور ان سے متعلقہ ضمنی معاملات پر اجلاس طلب کیے۔ اقوامِ متحدہ نے متعدد طریقوں سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کرانے کی کوششیں بھی کیں۔سنہ 1948 میں تنازع کشمیر پر چار قراردادیں منظور ہوئی تھیں۔ سنہ 1950 میں ایک قرارداد، سنہ 1952 میں ایک قرارداد، سنہ 1957 میں تین قراردادیں کشمیر کے بارے میں سلامتی کونسل میں منظور ہوئیں ۔ ان قراردادوں کے درمیان کئی مشنز تشکیل پائے، لیکن مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ 14 مارچ 1950ء کو سلامتی کونسل نے قرارداد پاس کی کہ دونوں ملک بیک وقت فوجوں کا انخلاء شروع کریں گے۔ 13 اگست 1948ء کی قرارداد میں کہا گیا کہ جب پاکستان اپنی فوج اور قبائلیوں کو نکال لے گا تو یہاں کا انتظام مقامی انتظامیہ سنبھال لے گی اور کمیشن اس کامکی نگرانی کرے گا۔اس قرارداد میں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ بھارت کو یہاں ساری فوج رکھنے کی اجازت ہو گی بلکہ قرار پایا کہ اس کے بعد بھارت بھی اپنی فوج کا بڑا حصہ یہاں سے نکال لے گا اور اسے صرف اتنے فوجی رکھنے کی اجازت ہو گی جو امن عامہ برقرار رکھنے کے لیے مقامی انتظامیہ کی مدد کے لیے ضروری ہوں۔جب اقوام متحدہ کے کمیشن نے دونوں ممالک سے قرارداد پر عملدرآمد کے لیے پلان مانگا تو بھارت نے دو مزید مطالبات کر دیے۔ ایک یہ کہ اسے سیز فائر لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شمال اور شمال مغرب کے علاقوں پر کنٹرول دیا جائے اور دوسرا یہ کہ آزاد کشمیر میں پہلے سے قائم اداروں کو نہ صرف مکمل غیر مسلح کر دیا جائے بلکہ ان اداروں کو ہی ختم کر دیا جائے، اس بات کا اعتراف جوزف کاربل نے اپنی کتاب ’ ڈینجر ان کشمیر ‘ کے صفحہ 157 پر کیا ہے۔جوزف کاربل کا تعلق چیکو سلواکیہ سے تھا اور یہ اقوام متحدہ کے کمیشن کے چیئر مین تھے اور کمیشن میں ان کی شمولیت بھارتی نمائندے کے طور پر ہوئی تھی۔ جوزف کاربل نے اعتراف کیا کہ بھارتی موقف اقوام متحدہ کی قرارداد سے تجاوز کر رہا تھا۔ پاکستان نے آزاد کشمیر سے فوج نکالنے پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کے مطابق بھارت جو ضروری فوج کشمیر میں رکھے گا اس کی تعداد اورتعیناتی کا مقام اقوام متحدہ کمیشن کو پیش کیا جائے۔ بھارت نے اس سے بھی انکار کر دیا۔اس پر کمیشن نے امریکی صدر ٹرومین اور برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی کی تجویز پر کہا کہ دونوں ممالک اپنا موقف پیش کر دیں جو ایک مصالحت کار کے سامنے رکھا جائے اور وہ فیصلہ کر دے۔ اقوام متحدہ کی دستاویزات کے مطابق پاکستان نے یہ تجویز بھی قبول کر لی لیکن بھارت نے اسے رد کر دیا۔ بھارت کے اپنے نمائندے نے اعتراف کیا کہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر بھارت کی وجہ سے عمل نہ ہو سکا۔ 1965 میں پانچ مختلف قراردادیں اور فیصلے منظور ہوئے۔ سنہ اکہتر میں دو قراردادوں میں تنازع کشمیر کا ذکر تھا۔ یہ قراردادیں پاکستان اور بھارتکے درمیان جنگ بندی کے بارے میں تھیں۔ دونوں مرتبہ سوویت یونین کے ویٹو کی وجہ سے کوئی بھی قرارداد کشمیریوں کی حمایت میں منظور نہ ہو سکی۔اقوامِ متحدہ کی دستاویزات میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائین آف کنٹرول کو ایک متنازعہ لائن سمجھا جاتا ہے۔سنہ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد سوویت یونین کی سرپرستی میں ہونے والے معاہدہ تاشقند میں اقوامِ متحدہ کا کردار محدود کر دیا گیا۔ سنہ 1972 میں پاکستان اور بھارتکے درمیان شملہ معاہدہ طے پانے کے بعد بھارت نے تنازع کشمیر کو مستقلاً سرد خانے میں ڈال دیا اور جب بھی پاکستان نے اس موضوع پر کسی عالمی فورم پر بات کی بھارت نے ہمیشہ جواب دیا کہ یہ معاملہ طے پا چکا ہے یا یہ دو طرفہ معاملہ ہے۔ اقوام متحدہ مشرقی تیمور جیسے کئی علاقوں کو پرامن طریقے سے آزادی دلا چکا ہے۔ اہل کشمیر 70ہزار سے زاید جانیں قربان کر چکے ہیں‘ بھارتی فورسز پہلے دن سے لے کر آج تک نئے نئے قوانین کی آڑ میں کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوشش کر رہی ہیں۔5اگست 2019ء سے کشمیر کی الگ آئینی حیثیت کو بدل کر کشمیر میں جبر اور ظلم کا ماحول مسلط کر رکھا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی بات کی ہے۔ تاریخی طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ بھارت دوست ممالک، سابق صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ اور اقوام متحدہ کی ثالثی پر راضی نہیں۔ ان حالات میں سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کو ثالثی کی بجائے تنازع کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں حل کرنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔