کہتے ہیں کسی زمانے میں ایک ہڈحرام راجہ ہوا کرتا تھا ،اسکی نظررعایا کی فلاح کے بجائے ان کی جیبوں اور کھیتوں کھلیانوں پر ہوا کرتی تھی،راج نیتی اس سے ہوتی نہ تھی سارا دن موج مستیوں میں گزرتا اورپھر دربار میںسانڈ کی طرح پڑارہتا۔ وہ ریاست کا راجہ بھی تھا اور قاضی القضاۃ بھی پھر اسے انصاف کرنے کا ہیضہ بھی تھا اسی لئے لامحالہ تنازعات بھی اسکے علم میں لائے جاتے اور راجہ صاحب وہ انصاف کرتے کہ لوگ انگشت بدنداں رہ جاتے ، راجہ جی کو عجیب قسم کے احکامات دینے کا بھی شوق تھا ایک دن انہوں نے ہر شے کے نرخ یکساں کر دیئے جو شے چاہو ٹکا سیر خریدو…انہی دنوںکی بات ہے کہ ایک نگری نگری پھرتا گرواپنے چیلے کے ساتھ راجہ جی کی ’’ہرشے ٹکا سیر‘‘ والی ریاست میں آگیا اوبڑا حیران ہوایہ کیسا ملک اور کیا ماجرا ہے کہ ہر شے ٹکا سیر،گروجی کا ماتھا ٹھنکا کہ یہ خلاف فطرت بھاؤ تاؤ کوئی نہ کوئی رنگ لائے گا اس نے چیلے سے کہاکہ یہاں رکنا خطرے سے خالی نہیں بس نکلنے کی کرو لیکن چیلے کو یہ جنت لگ رہی تھی اس نے انکار کردیا کہ گرو جی اس جیسی ریاست بھلا کہیں اور کہاں یہاں تو لمبا رکنے کو من کرتا ہے میری مانوتویہیں رہ لیتے ہیں ،گرو جی نے چیلے کو بہت سمجھایا لیکن وہ نہ مانا تو گرو اکیلا ہی وہاں سے نکل پڑا،پیچھے رہ جانے والا چیلا ہر شے ٹکے کی خرید خرید کرکھاتا اور کھا کھا کر بھینسا ہوتا چلا گیا ،انہی دنوں راجہ جی کے پاس ایک مقدمہ لایا گیاکہ ایک کوچوان کے گھوڑے کے بدکنے سے گاڑی الٹ گئی اور ایک بندہ دب کر جان سے گیا ،راجہ نے مقدمہ سنا اور کوچوان کو پھانسی کا حکم دے دیا کوچوان نے دہائی دی کہ میرا کیا قصورغلطی تو اس عورت کی ہے جو پاؤں میں پائل چھنکاتی گزری تھی جس سے گھوڑا بدکا،عورت کو پکڑ کر لایا گیا اس نے کہا راجہ جی غلطی میری نہیں سنار کی ہے جس نے تیز آواز کرنے والی پائل بنائی ،سنار کو لایا گیا وہ بھی اپنی بلا کسی اور کے سر ڈال گیا اور اس طرح سب ہی اپنے سر آئی قضا دوسرے کے سر پر ڈالتے رہے یہاں تک کہ ایک احمق ایسا بھی مل گیا جو کسی او ر کو نہ پھنسا سکا تو اسی کی پھانسی کا حکم ہوگیا،مقدمہ خاصا مشہور ہوچکا تھا اس لئے مقررہ دن راجہ ہی نہیں پورا شہر انصاف ہوتا دیکھنے کے لئے میدان پہنچ گیا،مقررہ وقت پر جلاد نے روتے چلاتے ـ’’مجرم‘‘ کی گردن میں پھندا ڈالا لیکن وہ ڈھیلا نکلا معاملہ پھر راجہ جی کے پاس آگیا کہ کیا کریں راجہ نے کہابھئی پھانسی تو دینی ہی دینی ہے ایسا کرو جس کی گردن میں پھندا پورا پڑتا ہو اسے لٹکا دو اس فارمولے سے گرو کا کھا کھا کر سانڈ بن جانے والا چیلا پھنس گیا اور اسے سولی پر چڑھانے کے لے آیا گیا،وہاں گرو بھی تھا اس نے چیلے کو دیکھا تو ترس آگیا وہ مجمع چیرتا ہوا جلاد کے پاس پہنچااور کہا رک جاؤ اس کی جگہ پھانسی مجھے دو۔ جلاد نے غصے سے گرو کو دیکھا اور راجہ کے پاس لے آیاراجہ نے پوچھا تجھے مرنے کی کیا جلدی ہے اس پر ہوشیار گرو نے کہا راجہ جی یہ بڑا ہی مبارک وقت ہے جو مرے گا سیدھا سورگ میں جائے گا راجہ نے یہ سنا تو تخت سے اترا اور پھانسی جھول گیا اور ہمیں ’’اندھیر نگری چوپٹ راج ،ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاج ‘‘ کی کہاوت دے گیا۔ مجھے اندھیر نگر اوراس کا راجہ اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے غیر مستقل ارکان کے انتخاب کے لئے ہونے والے انتخابات پر بے طرح یاد آیا اس میں بھار ت نے کینیڈا جیسے ملک کو شکست دے کردو سال کے لئے سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے نشست سنبھال لی۔بھارت کو اس نشست پر جیت کے لئے 192ممالک سے 128ووٹ درکار تھے بھارت نے مقابلہ کیااور 184ووٹ لے کر اقوام عالم کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن ہوگیایعنی اب بھارت دنیا کی سلامتی کے بارے میں ہونے والے اجلاسوں میں بیٹھے گا ،اقوام عالم کو صلاح مشورے دے گا،ان کی تجاویز سنے گا …مزے کی بات یہ سب وہ بھارت کرے گاجس پرخود ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کوروندنے کا الزام ہے …یہ وہی بھارت ہے جس نے اقوام عالم کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیریوں کا حق خودارایت دے گا لیکن اس کے بعد سے وہ مسلسل انکاری ہے اور اب تو بھارت نے طے شدہ متنازعہ علاقے کو باقاعدہ طور پر اپنی حدود میں ضم بھی کر لیا ہے اب صورتحال یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جو اقوام عالم کی سب سے بڑی تنظیم کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل ہی سہی رکن ہے جس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سب سے زیادہ الزام ہے ،یہ وہی اقوام متحدہ ہے جس کی انسانی حقوق کونسل کی سربراہ مشیل بیچلیٹ بھارت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی تنظیموں کو صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے جانے دے …یہ وہی مشیل بیچلٹ ہے جس نے بھارت کے حال ہی میں متنازعہ شہریت کے قانون میںترمیم پر تنقید کی اوراسکے خلاف بھارتی سپریم کورٹ کا رخ کیا کہ اسے بھی سماعت میں شامل کیا جائے ۔یہ وہی اقوام متحدہ ہے اور یہ وہی بھارت ہے جس کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن امریکہ تشویش ظاہر کرتاہے وہ سرکاری سطح پر بھار ت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایاجائے ،امریکہ ہی کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے گذشتہ برس دسمبر میں کہا تھا کہ وہ بھارت پر زور دیتا ہے کہ اپنے ملک میں اقلیتوں کا خیال کرے انسانی حقوق کی مانیٹرنگ سے وابستہ ادارے بھارت کو دنیا کے بدترین ملکوں کی فہرست میں اوپر رکھنے پر مجبور ہیں۔ اسپیکٹیڑ انڈیکس کے 2019 ء کی فہرست کے مطابق غیر ملکیوں کے لئے خطرناک ترین ملکوں میں بھارت پانچویں نمبر پر تھا،خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے تھامس رائٹرزفاؤنڈیشن نے گذشتہ برس بھارت کو خواتین کے لئے دنیا کا سب سے زیادہ خطرناک ترین ملک قراردیا تھااس فہرست میں افغانستان اور صومالیہ بھی موجود تھے لیکن بھارت نے سب کو پچھاڑ دیا۔انسانی حقوق،حقوق نسواں ،بچوں کے حقوق،اقلیتوں کے حقوق سمیت کوئی بھی معاملہ اٹھا لیں بھارت سب سے آگے ملے گا حیرت کی بات یہ کہ جس ملک کا حاضر سروس فوجی افسر پڑوسی ملک میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا جائے اس ملک سے سوال ہونا چاہئے یا اقوام عالم کی سلامتی کے ضامن فورم پر لا بٹھانا چاہئے ؟ایسی ایسی بوالعجبیاں ہوں گی تو اندھیر نگر کا راجہ تو یاد آئے گا ،اقوام متحدہ کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں !