اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انٹونیو گوئٹرس یکم اکتوبربروز سوموار کو تین روزہ دورے پر بھارت پہنچے۔انکے دورے کامقصد گاندھی کے 150ویں یوم پیدائش پر انہیں خراج عقیدت پیش کرناتھا ۔ان کے دورہ دہلی کے دوران بزرگ کشمیریوں کی طرف اقوام متحدہ کے جنرل سیکریڑی کے نام خط لکھا۔اس مکتوب میں مقبوضہ کشمیرمیں ہورہی انسانی حقوق کی پامالیوں کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زور دیا گیا۔مکتوب میں کہا گیا کہ مسئلہ کشمیر کئی دہائیوں سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے، ہم آپ کی توجہ اس کی جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں۔خط میں کہا گیا کہ بھارت نے مذاکرات سے انکار کرکے نہ صرف کشمیر بلکہ خطے کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے، لہذا ہم اقوام متحدہ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے میں کردار ادا کرے۔ کشمیریوں کی طرف سے لکھے گئے مکتوب میں لکھاگیاکہ ہم اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی توجہ بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں ان پامالیوں کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کی ایک حالیہ رپورٹ میں صراحت سے بیان کیا گیا ہے اور بدقسمتی سے بین الاقوامی برادری کی اس معاملے پر حیران کن خاموشی نے ہندوستانی فورسز کو بغیر کسی جوابدہی کے کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کی شہ بخشی ہے۔بھارتی قابض فوج کے ہاتھوں (CASO )کی آڑ میں کشمیری عوام پر تشدد اور سختی کے ساتھ ساتھ خونین آپریشن کے دوران عوام کی جان اورانکی املاک کو تباہ کرنا معمول بن گیا ہے، جس کے باعث مقبوضہ کشمیر میں جنگ جیسی صورتحال پائی جاتی ہے ۔ خط میں کہا گیا کہ عالمی عدم توجہ اور بھارتی قابض فوج کو قانونی استثنیٰ نے کشمیری عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کشمیری گرفتاریوں، قید، تشدد اور قتل و غارت کا نشانہ بن رہے ہیں اوربھارتی قابض فوج نہتے کشمیریوں کے خلاف بلٹ اور پیلٹ کا اندھا دھند استعمال کرتی ہے اور اب تک 16 ہزار سے زائد کشمیریوں کو پیلٹ گن سے نشانہ بنایا جاچکا ہے، جن میں سے سینکڑوں مکمل طور پر بینائی سے محروم ہوگئے ہیں، نابینا ہونے والوں میں 14 فیصد کی عمر 15 سال سے کم ہے۔انہوںنے لکھا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان جغرافیائی حدود کا تنازع نہیں بلکہ یہ کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ عوام کو ان کابنیادی حق دینے کا مسئلہ ہے، جسے حل کرنے کا بنیادی تقاضا ہے کہ ہمیں سنا جائے۔انہوں نے لکھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ طے شدہ فریم ورک کے ساتھ حل ہو اور سیکریٹری جنرل بھارتی قیادت سے بات کے دوران کشمیریوں کی آہ بکااورانکی چیخ پکار کو مد نظر رکھیں۔انہوں نے لکھاکہ اقوام متحدہ جنرل سیکریٹری انٹونیو گوئٹرس کودہلی کے بجائے مقبوضہ کشمیرآجاناچاہئے تھاتاکہ وہ بچشم خودکشمیریوں کی صورتحال کودیکھ پاتے۔ خیال رہے کہ دوماہ قبل ا قوام متحدہ کی طرف سے کشمیر میں انسانی حقوق سے متعلق پہلی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے عام کشمیریوں کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کا فوکس جولائی 2016 سے اپریل 2018 کے دوران جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ رپورٹ میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بھارتی فورسز کے ہاتھوں اس دوران 145 عام شہری مارے گئے جب کہ اسی عرصے کے دوران مسلح گروپوں کی جانب سے بھی بیس کے قریب عام شہریوں کو قتل کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق، 2016 میں شروع ہونے والے مظاہروں کے رد عمل میں بھارتی فورسز نے طاقت کا بے جا استعمال کیا جو غیر قانونی ہلاکتوں اور بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو زخمی کرنے کی وجہ بنا۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین نے اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ برداشت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے جموں اور کشمیر میں بھارتی فورسز کے ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی نہ ہونے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جس کی وجہ 1990 میں بنایا گیا وہ قانون ہے جو ایسے اہلکاروں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری برائے انسانی حقوق جناب زید رعد الحسین نے ہیومن رائٹس کونسل سے کہا ہے کہ وہ تمام طرح کی خلاف ورزیوں کے خلاف ایک انکوائری کمیشن تشکیل دے۔اپنے بیان میں زید رعد الحسین نے ہیومن رائٹس کونسل سے کہا کہ وہ تمام طرح کی خلاف ورزیوں کے خلاف ایک انکوائری کمیشن تشکیل دے۔ ہیومن رائٹس کونسل کا تین ہفتے دورانیے کا اجلاس جنیوا میں جاری ہے اور اس کا آغاز پیر 11 جون کو ہوا تھا۔ زید رعد الحسین نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ وادی کشمیر اور جموں کے علاقے میں مبینہ اجتماعی قبروں کی بھی تحقیقات کی جائیں گی۔ اسے قبل اقوام متحدہ کی ایک ٹیم 26 مارچ 2012ء بروز سوموار کو سری نگروارد ہوئی تھی جس کی قیادت ماورائے عدالت ہلاکتوں سے متعلق اقوام متحدہ کے نمائند خصوصی کرسٹاف ہینز کر رہے تھے۔ اس سے قبل2011میںاقوام متحدہ کی خاتون مبصرمارگریٹ سیکاگایا نے کشمیر کا دورہ کیا تھا اور تقریباًایک سال کا عرصہ بیت جانے کے بعد جموں و کشمیر سے متعلق مرتب کردہ اپنی رپورٹ 15فروری 2012بدھ کوجاری کی تھی جس میں بشری حقوق کی خلاف ورزیوں پر مکمل روک لگانے،ظالمانہ اور سفاکانہ قوانین آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ کو منسوخ کرنے ،اجتماعی اوربے نام قبروںاور گمشدہ افراد کے بارے میں غیر جانبدارانہ تحقیقات عمل میں لانے، کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوںخواتین کی عصمت ریزی، 2010 کی ایجی ٹیشن کے دوران میڈیا پر قدغن ، بھارتی فوج کے ہاتھوںکشمیر میںصحافیوں کی ہلاکت،سری نگر میں انسانی حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والے کشمیر کے ایک بڑے وکیل جلیل اندرابی قتل کیس اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے افراد پر زیادتیوں اور بشری حقوق کی پاسداری کے حوالے سے متعدد سفارشات پیش کی ہیں ۔دونوں مواقع پرکشمیریوں نے یو این نمائندوں سے سوال کیا کہ کشمیر میں اگر کسی فوجی کو ماورائے عدالت ہلاکت میں ملوث پایا جائے تو اس کا قانونی مواخذہ کیوںنہیں کیا جاتا۔ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر سے متعلق کئی قراردادیں موجود ہیںجن میں5جنوری 1949کی قرارداداہم دستاویز کے طور پر مانی جاتی ہے۔یہ قراردادیںاہل کشمیر کے حافظے کی لوح پر ایک بھیانک یاد کے طور محفوظ ہیں جب بھی ان قراردادوں کا تذکرہ کیاجاتاہے تو ملت کشمیر کو اپنے مقدر کے ساتھ وابستہ اور اپنے مقدر کی وابستگی کی وہ تاریخی داستانیں یاد آتیں ہیں۔ جن کے سحر اور اثر سے آج بھی کشمیری مسلمان باہر آنے کیلئے ہر گز تیار نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ مشرقی تیمور اورجنوبی سوڈان کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت ریفرنڈیم کا حق دینے والے کشمیر اور فلسطین کو اسی ادارے کے تحت دئیے گئے حق پر عملدر آمد کے مرحلے کو شرمناک طریقے سے بائی پاس کر رہے ہیں۔ امریکہ اور بعض دوسری طاقتیںاس سازش میں مصروف ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی بجائے کسی تہہ خانے کی نظر کر دیا جائے ۔ اس کے لئے امریکی سر پرستی میں ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا سلسلہ کئی برس سے جاری ہے اور ایسے ممکنہ طریقوں پر غور کیا جا رہا ہے جن پر عمل کر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا معاملہ گول کر دیا جائے ۔مشرقی تیمور اورجنوبی سوڈان میں ریفرنڈم کشمیراورفلسطین کے لئے سازش ،دیوار برلن کی ٹوٹ پھوٹ میں دلچسپی اور دیوار برہمن کے دوام کے لئے حیلے بہانے ‘ تیل کے کنوئوں کے لئے طاقت اور انسانی خون کے لئے مصلحت‘‘ اقوام متحدہ اور امریکیوں کی یہی معاندانہ روشن ، منافقت اور دہرا معیار ہر مقام پر مسلمانوں میں اس کے خلاف رد عمل پیدا کر رہا ہے۔ بلکہ اقوام متحدہ کی (Credibility) بھی ختم ہوتی جا رہی ہے اور مسلمانوں کا اس ادارے سے کلی طور پر اعتماد اٹھتا جا رہا ہے کیونکہ یہ ادارہ محض امریکی مقاصد کو آگے بڑھانے کے سوا کسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا۔ اسی دہرے معیارکے باعث مغرب اور مسلمان ہر جگہ متصادم نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کو تیسرے درجے کی مخلوق سمجھ کر ان کے حقوق کے لئے مختلف معیار اور اوزان کے استعمال کا رویہ مغرب اور مسلمانوں میں خوفناک عالمی کشمکش کو جنم دے رہا ہے ۔ اگر امریکہ اور اقوام متحدہ اپنے بارے میں پائے جانے والے تاثر کو ختم کرتے اور اس خوفناک عالمی کشمکش کو روکنا چاہتے ہیں تو انہیں دہرے معیار کو ترک کر دینا چاہیے اور عالمی منظر پہ مسلمانوں کو ان کا حق دینا چاہیے ۔ مشرقی تیمور اورجنوبی سوڈان کے بعد مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کا اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملد رآمد ان کے لئے ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے وہ کشمیر میں رائے شماری کا اہتمام کر کے اور فلسطین کی سر زمین پر فلسطینی مسلمانوں کا حق تسلیم کر تے ہوئے اپنے دامن پر لگنے والے بد نما دھبوں کو دھو سکتے ہیں ۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ کیونکہ کشمیر اور فلسطین میں تو مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ اپنا رنگ چھوڑنے کو تیار نہیں ۔ نہ ہی مغرب کا رنگ اختیار کرنے پر آمادہ ہیں ۔ اس لیے وہ مشرقی تیمور اورجنوبی سوڈان کے عوام کی طرح خوش قسمتی کی اس منزل پر کیونکر پہنچ سکتے ہیں ۔