مالکِ کائنات نے جہاں اپنی مخلوق پر بے شمار احسانات کیے، یہ زمین و آسمان، یہ ہوا اور پانی، یہ جمادات و نباتات، یہ چرند و پرند، یہ صحرا و دریا، ان گنت نعمتیں انسانی سہولیات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اس دنیائے فانی میں رکھ کر اس عالم رنگ و بْو کی افادیت اور اسے انسانوں کے رہنے کے قابل بنایا۔ مگر ساتھ ہی پوری انسایت پر ایک احسانِ عظیم یہ بھی کیا کہ انہی میں سے ایک انمول و بے مثل انسان کو رحمت العالمین ﷺ بنا کر خلعتِ نبوت سے نوازا۔ نبوت بھی ایسی کہ اسکے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم اْس نبی آخری الزمان ﷺکی اْمت میں سے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ہمارے اعمال و کردار کیسے ہیں۔ اور ہم دیدہ دلیری سے کئی احکامات الٰہی جو قرآن کی صورت میں حضرت محمّد مصطفٰی ﷺ پر اللہ تعالٰی کی آخری الہامی کتاب کے طور پر اْتارے گئے، اْن حدود و قیود کی صریحاً خلاف ورزی بھی کرتے ہیں جو قرآن پاک اور اس مجسّم قرآن خاتم النبینﷺ کے اخلاق و کردار کے ہر انگ انگ سے عیاں ہیں۔ نبی اکرمﷺ کی بے شمار احادیث جن کا لب لباب ایک فقرہ میں یوں ہے کہ انسانوں میں بہترین وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں۔ قرآن پاک کی روشنی میں عبادات اور معاملات جنہیں ہم اخلاقیات بھی کہہ سکتے ہیں کہ واضح راستے ہیں۔ بلاشبہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد صوم و صلوۃ کی پابند اور ذکر اذکار میں پوری طرح مگن رہتی ہے۔ مگر پھر بھی اْمت مسلمہ کی حالت بدل نہیں رہی۔ یہ اْمت ہر لحظہ اور ہر لمحہ روبہ زوال ہے۔ تمام مادی وسائل رکھنے کے باوجود اقوامِ عالم میں مسلمانوں کی نہ کوئی مناسب، زور دار، با اثر اور معنی خیز آواز ہے نہ حیثیت۔ اس کی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں۔ جن میں لیڈرشپ کا فقدان، سیاسی رسّہ کشی، مفادات کی جنگ، کم نگاہی، جدیدیت اور اجتہاد کا فقدان، لکیر کے فقیر، تنگ نظری اور ہٹ دھرمی اور شدّت پسندی بھی شامل ہوسکتیں ہیں۔ مگر ہماری نظر میں اسکی بنیادی وجہ قرآن پاک اور سیرت رسول اکرم ﷺ میں بتائے گئے اْصولوں سے انحراف سر فہرست ہے۔ ہم نے عبادات والا حصّہ تو مضبوطی سے پکڑ لیا مگر معاملات والا حصّہ یا تو بلکل چھوڑ دیا یا اْس میں اتنا جھول پیدا کر دیا کہ ہماری عبادات بھی ہمارا رْخ متعیّن نہ کر سکیں اور ہم دنیا میں اس مقام سے بہت دور جا گرے جہاں بطور مسلمان حامل قرآن ہونے اور نبی کریم ﷺ کی اْمت ہونے کے سبب ہمیں ہونا چاہیے تھا۔ اور بقول علامہ اقبال: وہ زمانے میں معزّز تھے مسلمان ہو کر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر جب بات معاملات یا اخلاقیات کی ہوتی ہے تو پھر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ آپ کے پاس ٹیکنالوجی کتنی ایڈوانس ہے۔ آپ کے پاس ایٹم بم کتنے ہیں۔ آپ کے مزائلوں کی رینج کتنی ہے۔ راقم کو دو سال قبل یورپ کے تین چار ملکوں کی سیاحت کا زندگی میں پہلی بار موقع ملا۔ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اْن لوگوں کا جنہیں ہم کافر کہتے ہیں مثالی ڈسپلن اور اخلاقی رویّہ تھی۔ سڑک پر ٹریفک بلاک ہونے کی صورت میں کسی کو یہ ہمت نہ تھی کہ وہ اسی روڈ پر ساری پابندیاں توڑتا ہوا آگئے نکلنے کی کوشش کرے۔ اگر کسی موڑ پر اچانک سامنے سے گاڑی آجائے تو ہر کوئی دوسرے کو پہلے گزرنے کا اشارہ کرتا ہے اور پھر مسکرا کر شکریہ بھی ادا کرتا ہے۔ ہارن کی آواز وہاں سْننے کو نہیں ملتی۔ سڑک پر کسی قسم کا گند یا کچرہ حتٰی کہ کاغذ کا ٹکرا پھینکنا بھی اخلاقی طور ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔ صفائی اور ستھرائی اتنی مسحور کْن اور دلفریب کے بیان سے باہر۔ایمبولنس کو راستہ وہ مذہبی فریضہ سمجھ کر دیتے ہیں۔ گاڑی ٹکرانے کی صورت میں نہ گالم گلوچ نہ ہاتھا پائی۔ بلکہ اطمینان سے اپنے اپنے سیل نمبروں کا تبادلہ کرتے ہیں کہ نقصان کا ازالہ بروقت ہوسکے۔ وہاں ملاوٹ شدہ چیزیں ناپید نظر آئیں۔ لوگ صحت مند اور ہشاش بشاش نظر آتے ہیں۔ اگرچہ وہاں خاندانی نظام کافی عرصہ سے ٹوٹ پھوٹ چکا ہے اور اْسکی الگ قباحتیں ہیں۔ مگر سر دست یہ موضوع زیرِ بحث نہیں۔ اب ہم اپنی طرف آتے ہیں۔ نظام صوم و صلوۃٰ پر کاربند معاشرہ مگر بازار میں کوئی چیز خالص نہیں۔ ان ظالموں نے تو بچوں کے دودھ کو بھی خالص نہیں رہنے دیا۔ دودھ اور دیگر اشیائے خوردنی میں کیا کیا ملایا جاتا ہے۔ کس طرح کی گندی اور زہر آلود اشیا کی ملاوٹ کی جاتی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ ہمیں تو میڈیسن خریدتے وقت بھی پہلے اْس فارمیسی کا تعیّن کرنا پڑتا ہے جہاں سے ہمیں کوالٹی میں کچھ بہتر دوائیاں ملنے کا امکان ہو۔ ناپ تول میں گڑبڑ، فرائض میں کوتاہی، بے ایمانی، جھوٹ، مکر و فریب کیا کیا دھندے ہیں۔ ہمارے لین دین میں۔ شکایات کا یہ عالم ہے کہ اس وقت ہماری عدالتوں میں سب سے زیادہ فوجداری مقدمات زیرِ دفعہ. 489F یعنی چیک ڈس آنر ہونے کے ہیں۔ جسکا صاف اور سادہ مطلب یہ ہے کہ ہمارے کاروباری لین دین میں اعتماد اور شفافیت کا شدید فقدان ہے۔ پھر ہمارے معاشرتی رویّے بڑے عجیب و غریب ہیں۔ ہماری ٹریفک کی ابتری اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہم اخلاقی طور پر کس قدر کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم لاہود شہر کے اندر روزانہ گھنٹوں ٹریفک جام کے مناظر دیکھتے ہیں۔ ہر کوئی ٹریفک ضوابط کی خلاف ورزی کرنے میں برتری کی دوڑ میں شامل ہوتا ہے۔ ون وے کی خلاف ورزی معمول ہے۔ اس میں گاڑی والے اور موٹر سائکل والے میں کوئی تمیز نہیں۔ اب تو اس شہر میں لوگ ایمبولنس کے سائرن کی پرواہ کرنا بھی چھوڑ گئے ہیں۔ ہمارے خیال میں ہمیں ٹیکنالوجی کے حصول، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ میں مہارت سے زیادہ انسانی کردار سازی اور اخلاقی حدود و قیود کی پاسداری کی طرف توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے کہ اخلاقی طور پر بانجھ قومیں ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جایا کرتی ہیں۔