معزز قارئین!۔ پرسوں (4 اکتوبر کو ) لاہور میں دو تقریبات منعقد ہُوئیں ۔ ایک تقریب میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے "Sparco" کے زیر اہتمام(4 سے 10 اکتوبرتک) "World Space Week" کا افتتاح کِیا اور سپارکو ؔکے دفتر میں ایک پودا بھی لگایا۔ دوسری تقریب میں جمعیت عُلماء اسلام ( ف) کے امیر فضل اُلرحمن صاحب نے جمعیت عُلماء اسلام کی مجلس عمومی ؔسے خطاب کِیا۔

اپنے خطاب میں گورنر چودھری محمد سرور نے سپارکوؔ کی طرف سے دو "Remote Satellite" (دُور دراز، زمین سے چھوڑے ہُوئے مصنوعی سیارچوں ) پر سائنسدانوں اور انجینئرز کو مبارک باد دیتے ہُوئے ، اِسے پاکستان کی تاریخ میں سنگِ میل قرار دِیا اور کہا کہ ’’ قرآن پاک میں خلاء کو تسخیر کرنے سے لے کر زمین کے اندر چھپے ہُوئے خزانوں کو تلاش کرنے کا ابدی پیغام موجود ہے‘‘ ۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ "Sparco Satellite Data" کو توانائی کے شعبے کی پلاننگ ، ہائیڈرو پراجیکٹس ، گیس اور تیل کی پائپ لائنز بچھانے ، سڑکوں کی تعمیر ، واٹر مینجمنٹ ، ٹائون پلاننگ اور زراعت کی ترقی کیلئے استعمال کِیا جاسکتا ہے‘‘۔

گورنر چودھری محمد سرور نے کہا کہ "Space Technology" نے ہم سب کی زندگی پر زبردست اثرات مرتب کئے ، ہمارے رہن سہن میں انقلاب برپا کردِیا ہے ۔ ٹیلی فون، ٹی وی، نیوز چینلز، انٹرنیٹ اور ’’ ڈی۔ ٹی۔ ایچ‘‘ کا استعمال ہماری زندگی کے معاملات کا بنیادی جُز بن گیا ہے‘‘ ۔ تقریب میں شریک سپارکوؔ کے "Member Space Application" ۔ عمران اقبال، وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر نیاز احمد اختر اور ڈائریکٹر جنرل رضوان نصیر اور کئی پاکستانی سائنسدانوں نے اپنی گفتگو میں گورنر پنجاب کے خطاب پر اُنہیں خراجِ تحسین پیش کِیا اور کثیر تعداد میں اساتذہ اور طلبہ نے بھی ۔

معزز قارئین!۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ’’8 اگست 2018ء کو الیکشن کمشن آف پاکستان اسلام آباد کے سامنے (بظاہر) متحدہ اپوزیشن کے احتجاجی مظاہرے میں مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف ’’پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ کے صدر آصف زرداری اور اُن دونوں صاحبان کے فرزندان حمزہ ؔشہباز ،بلاول ؔبھٹو زرداری اور امیر جماعتِ اسلامی جناب سراج اُلحق شریک نہیں تھے چنانچہ فضل اُلرحمن صاحب کو احتجاجی مظاہرے کی قیادت کا موقع مِل گیا۔ اُن کی پُشت پر مقتول بلوچ گاندھیؔ ( میر عبداُلصمد اچکزئی ) کے فرزند پشتونخوا مِلّی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کھڑے تھے ۔ فضل اُلرحمن صاحب نے اپنے پُر جوش خطاب میں کہا کہ ’’ ہم 14 اگست کو یوم آزادؔی کیوں منائیں؟ ‘‘۔

دراصل ۔ فضل اُلرحمن صاحب (اپنے والدِ مرحوم )مفتی محمود صاحب کے ’’نظریۂ پاکستان‘‘ پر کاربند ہیں ۔ قیام پاکستان کے بعد مفتی صاحب کا یہ بیان "On Record" ہے کہ ’’ خُدا کا شُکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیں تھے ‘‘ لیکن اِس کے باوجود مفتی صاحب ۔ قائداعظمؒ کے پاکستان کی سیاست میں حصّہ لینے کے گُناہ میں تامرگ شریک ہوتے رہے۔ پھر 4 اکتوبر کے خطاب میں فضل اُلرحمن صاحب نے یہ دعویٰ کِیا کہ ’’ جمعیت عُلمائے اِسلام ‘‘ میں شامل ہمارے اکابرینؔ نے ، برصغیر ؔ (پاک و ہند) کی آزادی کے لئے بہت سی قربانیاں دِیں!‘‘۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ کون سی قربانیاں؟‘‘۔ قربانیاں توقائداعظمؒ کی قیادت میں ’’ آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ کے پرچم تلے مصروف جدوجہد مسلمانوں نے دِی تھیں ؟۔ 

اُن دِنوں ’’جمعیت عُلمائے ہند ‘‘ میں شامل اور ہندوئوں کے باپو شری موہن داس کرم چند گاندھی کے چرنوں میں بیٹھ کر قیام پاکستان کے مخالف مولویوں کو تو کانگریسی مولوی ؔ کہا جاتا تھا؟۔ معزز قارئین! مَیں مختصراً فضل اُلرحمن صاحب کی تقریر اور بیان کے دو حوالے پیش کر رہا ہُوں ۔ اُنہوں نے 31 مارچ 2013ء کو لاہور میں مینارِ پاکستان کے زیر سایہ اپنی ’’جمعیت عُلماء اسلام ‘‘ کے زیر اہتمام اور اپنی صدارت میں منعقدہ ’’ اسلام زندہ باد کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ ہندو۔ اب بھی ایک قوم ہیں لیکن برصغیر کے مسلمانوں کو تین حصّوں ( یعنی۔ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش) میں تقسیم کردِیا گیا ہے ‘‘۔ اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ فضل اُلرحمن صاحب قائداعظمؒ کے پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے؟۔ 

اِس سے قبل 28 اپریل 1997ء کو قومی اخبارات میں شائع ہونے والے اپنے بیان میں فضل اُلرحمن صاحب نے کہا تھا کہ ’’ پاکستان ایک خوبصورت نام ہے، لیکن طاغوتی ( شیطانی) نظام کے باعث مجھے اِس نام سے گھن آتی ہے!‘‘۔ اِس پر مَیں نے اپنے کالم میں لِکھا تھا کہ’’ حیرت ہے کہ ۔ مفتی محمود صاحب اِس ’’طاغوتی نظام ‘‘ کا حصہ رہے اور فضل اُلرحمن صاحب اب بھی ہیں، پھر بھی اُنہیں پاکستان کے نام سے گھن کیوں آتی ہے ؟‘‘۔ معزز قارئین!۔ 13 اکتوبر 2017ء کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک افسوس ناک ( شرمناک) واقعہ رونما ہُوا جب فضل اُلرحمن صاحب کے سرپرست اعلیٰ  نااہل وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پر، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ، وزیراعظم آفس کی ایک دیوار میں نصب مفتی محمود صاحب کی نہ جانے کن دینی ، قومی اور سیاسی خدمات کے اعتراف میں ، یادگاری ’’لوحِ مفتی محمود ‘‘ کی نقاب کُشائی کی تھی؟ ۔ 

قیام پاکستان سے قبل قائداعظمؒ نے پاکستان کو حقیقی ، اسلامی اور فلاحی مملکت بنانے کا اعلان کِیا تھا لیکن ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ ’’ پاکستان میں "Thecocracy" (مولویوں کی حکومت ) نہیں ہوگی‘‘۔ علاّمہ اقبالؒ کا بھی یہ فرمان تھا / ہے کہ …

’’ دِین ِ مُلّا فی سبیل اللہ فساد!‘‘

’’اہل قرآن ‘‘ ( قرآن پاک کے مفسرین) عُلماء نے شب ِ معراج رسولؐ کے حوالے سے مسلمانوں ( خاص طور پر حکمرانوں ) کے لئے تسخیر کائنات کے بارے میں وضاحت کی ہے۔ عاشقِ رسول علاّمہ اقبالؒ نے بھی ، اپنی نظم ’’معراج‘‘ میں کہا ہے کہ …

دے ولولہ ٔ شوق جسے لذت پرواز!

کرسکتا ہے وہ ذرّہ مہ و مہر کو تاراج!

یعنی۔’’ جو ذرّہ جسے عشق کا جذبہ و جوش اُڑان کی لذّت بخش دے وہ، چاند اور سُورج کو مسخر کرسکتا ہے ‘‘۔ نظم کے دوسرے شعر میں علاّمہ صاحب نے ، ہر مسلمان ( خاص طور پر حکمران ) کو مخاطب کر کے کہا کہ… 

تُو معنی وَ النجم نہ سمجھا تو عجب کیا؟

ہے تیرا مد و جزر بھی چاند کا محتاج!

یعنی۔ ’’ اگر تُو سُورہ نجم کو جس کا آغاز ۔ وَ النجم سے ہوتا ہے نہ سمجھ سکا ت اِس پر تعجب نہ ہونا چاہیے ۔ اِس لئے کہ تیرا مدو جزر ابھی تک چاند کا محتاج چلا آتا ہے توعشق حق سے بہرہ بَر نہ ہُوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی تعلیم سے فائدہ نہ اُٹھایا۔ مادی اسباب کا متحاج رہا نتیجہ وہی ہوسکتا تھا‘‘۔ 

معزز قارئین!۔ کُتب احادیث میں معراج رسول ؐ میں آپ ؐ کے کئی مشاہدات کا ذِکر ہے ۔ اُن میں سے دو ۔قیامِ پاکستان سے اب تک ہمارے پیارے پاکستان کے حسب حال ہیں۔ پہلا یہ کہ ’’ آپؐ نے دیکھا کہ کچھ لوگ سڑا ہُوا گوشت کھا رہے ہیں ۔ آپ ؐ  کو بتایا گیا کہ ’’ یہ وہ مالدار لوگ ہیں جو، سرمایہ پرستی کی ہَوس میں مُبتلا ہیں اور حقوق اُلعباد (عوام کے حقوق ) سے پہلو تہی کرتے ہیں !‘‘۔ اور دوسرا یہ کہ ’’ کچھ لوگ ایسے تھے کہ جن کی زبانیں اور ہونٹ کاٹے جا رہے تھے ۔ اور جب کٹ چکتے تو وہ ویسے ہی ہو جاتے ‘‘۔ آپ کو بتایا گیا کہ آپ کی اُمّت کے وہ واعظ اور خظیب ہیں جو ، دوسرے کو لمبی چوڑی نصیحتیں کرتے تھے لیکن خُود عمل پیرا نہیں ہوتے تھے! ‘‘۔ 

قائداعظمؒ نے گورنر جنرل آف پاکستان کا منصب سنھبالا تواپنی جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا۔ اِس سے قبل جمہوریہ تُرکیہ کے بانی غازی مصطفی کمال پاشا نے بھی ایسا ہی کِیا تھا لیکن، عُلمائے سُو ؔنے اُمّتِ مسلمہ کے اِن دونوں قائدین کے خلاف کُفر کے فتوے دے کر رُسوائی حاصل کی۔ معزز قارئین!۔ ’’شاعرِ سیاست‘‘ کی ایک نظم ’’ مُک مُکا‘‘ کے دو شعر ہیں …

حشر تک بہتی رہے گی کیا یہ جُوئے مُک مُکا؟

خُو برُو کہلاتے ہیں کیوں زِشت رُوئے مُک مُکا!

…O…

قائدین ؔقوم نے اپنا لی خُوئے مُک مُکا!

اور اُن کے ساتھ ہیں عُلمائے سُوئے مُک مُکا!