ملک میں اقتدار کی منتقلی کے ایام ہیں۔ ان ایام میں وہ جماعت اور اس کے کارکن اب گھروں میں ہیں جنہوں نے چار سال تک قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لئے نظام زندگی کو مفلوج کئے رکھا۔ نہ انہوں نے کسی کو سکون سے کار و بار کرنے دیا، نہ بڑے پروجیکٹس کو بروقت مکمل ہونے دیا اور نہ ہی غیرملکی وفود کو اپنے شیڈول پر پاکستان پہنچنے دیا۔ ہم انہیں بہت سمجھاتے رہے کہ آپ کی ان حرکتوں سے مسلم لیگ نون کا نہیں ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔ لیکن نچ بلیوں نے ہماری ان گزارشات کی پروا نہیں کی۔اب وقت مصنوعی طور پر ہی سہی لیکن بدل تو چکا۔ اب اس مقام پر وہ کھڑے ہیں جہاں مسلم لیگ کھڑی تھی اور اپوزیشن کا کردار نون لیگ کے ہاتھ میں آ چکا ہے۔ یقین نہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت قومی ترقی کا کوئی مناسب سفر شروع کر سکے گی کیونکہ تنکوں کے سہارے کھڑے اس کے اقتدار کو باہر سے اتنے خطرات لاحق نہیں جتنے اندر سے ہیں۔ جتنی کوئی حکومت عددی لحاظ سے کمزور ہوتی ہے اتنی ہی وہ اندرونی بلیک میلنگ سے دوچار ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی حکومت قومی ترقی کے کام پر توجہ ہی مرکوز نہیں کر پاتی۔ کیونکہ وہ قومی ترقی کے بجائے اقتدار کے بچاؤ کی فکر میں ہی ہمہ وقت مشغول ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی خیر کی امید تو رکھنی چاہئے۔ سو ہماری خیر کی امید یہی ہے کہ یہ حکومت بھی قومی ترقی کا اپنی طرز کا کوئی منصوبہ شروع کرے گی۔ ایسے میں پی ٹی آئی اور اس کے ورکرز کی سب سے بڑی ضرورت اور خواہش کیا ہوگی ؟ یہی کہ نظام حیات میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔ ٹریفک کی روانی اور کار وبار کی فراوانی کو یقینی بنایا جائے۔ غیرملکی وفود کے پاکستان آنے کے شیڈول متاثر نہ ہوں۔ کوئی سربراہ مملکت یا سربراہ حکومت پاکستان آنا چاہے تو اسے یہ نہ سوچنا پڑے کہ جاؤں یا نہ جاؤں ؟ ملک میں سیاسی استحکام کی فضاء ایسی ہو کہ غیرملکی سرمایہ کار خوف کا شکار نہ ہوں۔ اپوزیشن کی ریلیاں احمد شاہ ابدالی کا لشکر بن کر لاہور سے اسلام آباد پر حملہ آور نہ ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی سیاسی و فکری بددیانتی کے ساتھ قومی ترقی ممکن بھی ہو سکتی ہے ؟ کیا ہمیں ترقی یافتہ قوم بننے کا حق بھی حاصل ہے ؟ میں پورے نواز دور میں آپ کو دلائل دے دے کر بتاتا رہا کہ سیاسی عدم استحکام ہماری اپنی تباہی کا راستہ ہے، اب میں یکایک یہ لکھنا شروع کردوں کہ نون لیگ فورا سڑکوں پر آئے اور نظام حیات کو منجمد کرکے حکومت کو قدم نہ جمانے دے تو کیا مجھ سے بڑا کوئی منافق ہوگا ؟ کیا یہ بے ضمیری کی انتہاء نہ ہوگی کہ جو اقدامات مجھے پی ٹی آئی کے لئے حرام نظر آتے تھے وہی اب نون لیگ کے لئے حلال نظر آنے شروع جائیں ؟ ہم سیاستدانوں کو گالیاں دیتے ہیں اور انہیں ہر خرابی کی جڑ بتاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم دانشوروں کا اپنا چلن کوئی مثالی چلن نظر آتا ہے ؟ کیا ہم ہر حکومت میں قبلہ نہیں بدلتے ؟ کیا ہمارے حلال و حرام اصولوں پر استوار ہیں ؟ نہیں ہم اصولی لوگ نہیں ہیں۔ ہم جس چیز کو عمران خان کے لئے حلال بتاتے ہیں اسی کو وقت آنے پر نواز شریف کے لئے حرام قرار دینا شروع کر دیتے ہیں۔ عمران خان اپوزیشن میں ہو تو ہم ہنگامہ آرائی کے فوائد گنواتے ہیں اور نون لیگ اپوزیشن میں آجائے تو ہم راتوں رات امن و شانتی کے قائل ہوجاتے ہیں۔ ہم سیاستدانوں کو لوٹا کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ہمارا تو اپنا قلم ہی کسی قلمدان کے بجائے ایک لوٹے میں پڑا ہے۔ اگر اس ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کی معمولی سی آرزو بھی کسی صاحب قلم کے دل میں پائی جاتی ہے تو اس منافقت کو ختم کرکے اصولوں کو بالادستی دینی ہوگی۔ حکومتیں بیشک بدلتی رہیں لیکن ہمارے قبلے اور اصول بدلتے نظر نہیں آنے چاہئیں۔ کسی پروجیکٹ میں رکاوٹ ڈالنا اب بھی جرم سمجھتا ہوں۔ کسی کا کار و بار نہیں رکنا چاہئے۔ کسی صدر یا وزیر اعظم کے پاکستان آنے کے پروگرام تاخیر سے دوچار نہیں ہونے چاہئیں۔ غرضیکہ ہر اس منفی اقدام سے گریز کرنا ہوگا جس کا نقصان پی ٹی آئی کے بجائے ریاست کو ہو۔ نون لیگ کو دکھانا ہوگا کہ مثبت سیاست کیا ہوتی ہے ؟