یہی کوئی پندرہ بیس سال ادھر کی بات ہے، ہم عمرہ کے سلسلے میں سعودیہ میں مقیم تھے، اپنے چونتیس روزہ قیام میں سات دن مدینہ اور ستائیس روز مکہ مکرمہ میں گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ روزوں کی تعداد اور عید کے انعقاد کی جو سادہ سی اطلاع وہاں جاتے ہی ایک عرب سے موصول ہوئی، وہی آخر تک برقرار رہی، ذرا مزہ نہ آیا۔ اسی طرح مشرقِ وسطیٰ سے تشریف لائے ایک دوست سے عید کی تعطیلات کی بابت دریافت کیا تو فرمانے لگے کہ حکومت نے آج سے کئی سال قبل ایک ہی بار اعلان کر دیا تھا کہ انتیسویں روزے کے بعد چار چھٹیاں ہوں گی، اس پر نظرِ ثانی کا انھیں کبھی خیال ہی نہیں آیا۔ ہم ان بے چاروں کی ایسی بے رنگ اورسیدھی سپاٹ چھٹیوں پہ محض مسکرا کے رہ گئے۔ ہمیں ان سے ہمدردی کے لیے الفاظ تک نہ مل سکے۔ آپ خود ہی سوچیں جب تک متوقع چاند رات کو مختلف چینلز پہ تھرتھلی نہ مچے، مختلف شہروں سے رنگا رنگ شہادتیں موصول نہ ہوں، ٹی وی سکرینوں پہ رویتِ ہلال کمیٹی کی خبریں لُڈیاں نہ ڈالیں۔ مختلف علمائے کرام کے مزید مختلف بیانات سے ایل ای ڈی کی ستر انچ کی سکرین نہ بھری ہو، تب تک اس خوشی کا کیسے اندازہ کیا جا سکتا ہے؟ پھر جب تک گھریلو خواتین کے ذہنوں میں سحری اور سویوں کے درمیان میچ نہ پڑے۔ دودھ سے دہی یا کھیر بنانے کا آسانی سے فیصلہ ہو جائے۔ درزی اور پارلر والیوں سے تیسویں روزے کا معاہدہ کرنے والوں کی دوڑیں نہ لگیں۔ سرکاری ملازمین کو آدھی رات کو اچانک ملنے والی چھٹیوں کا ذائقہ معلوم نہ ہو، لیٹ نائٹ چاند نمائی کی خبر سن کر شہر کی گلیوں بازاروں میں موٹر سائیکلوں کے سائیلنسروں سے پٹاخے نہ چھوٹیں،عید کا خاک مزہ آئے گا؟ سچ پوچھیں تو ہمارے اچھے بھلے بزرگ حکیم جی اور جیسے تیسے دوست لالہ بسمل کو تو انتیس رمضان کی اس رات کا دنیا کی ہر چیز سے زیادہ انتظار رہتا ہے ۔ شام کے بعد ٹی وی کے سامنے ان کی محویت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بعض اوقات تو سانس لینا تک بھول جاتے ہیں۔ ایک بار ان سے پچیس سالہ خطبات کا خلاصہ پوچھا تو انھوں نے فر فر سنا دیا، جو کچھ یوں تھا: ’’مَیں مفتی تفصیل الزماں ولد تمثیل الزماں، بڑے بھائی کا نام تجلیل الزماں، مجھ سے چھوٹا تقلیل الزماں ، چوتھے نمبر والا ترتیل الزماں ، سب کے سب والد صاحب کی طرح کثیر العیال ہیں، اس کے باوجود خوش حال ہیں۔ میں اپنے والد کا دوسرے نمبر والا بیٹا ہوں، میرے کارناموں سے جلنے والے مجھے دو نمبر بھی کہہ دیتے ہیں۔ حالانکہ حالات و واقعات گواہ ہیں کہ میں شمار قطار میں آنے والی ہر حکومت کے سرکاری علما اور نیم سرکاری وفودمیں ہمیشہ پہلے نمبر پر رہا ہوں۔ مذہبی امور کی ہر وزارت، تمام زکوٰۃ صدقات کمیٹیاں اور ہم ایک دوسرے پر’ اندھا اعتماد‘ کرتے ہیں۔ ذرا اِس رویت ہلال کا معاملہ ہی دیکھ لیجیے کہ میں آدھی زبان سے بھی کہہ دوں کہ’ چاند نظر آ گیا ہے‘ تو نہ صرف یہ کہ میرے فرمان کے آگے کسی رکن کو پر مارنے کی مجال نہیں ہوتی بلکہ میرے اسی ایک جملے پر پورے ملک کی عید ہو جاتی ہے۔ اس طویل تمہید کے بعد بلا معذرت مَیں آپ کو بتانا یہ چاہ رہا تھا کہ میں مفتی تفصیل الزماں میٹرک تھرڈ ڈویژن فرام قلّات ڈویژن، بھانجا منشی محمد فاضل، بھتیجا مولوی گل محمد، سفید سوٹ میں ملبوس، واسکٹ کی قیمت ساڑھے سات ہزار روپے، نصف جن کے پونے چار ہزار ہوتے ہیں، دونوںپائوں میں گرگابی، رومال کا رنگ عنابی، جیب میں موبائل، چہرے پر سمائل، کلائی پہ گھڑی، ہاتھ میں چھڑی، انتیسویں کی رات، عینک کا نمبر سات، اسوج کی تاریخ آٹھ، عمر دو اوپر ساٹھ، آج بعد از نماز عصر، بقائمیِ ہوش و حواس، گھر واقع گڑھی شاہو، بہ اندازِ رَم آہو، گھر سے روانہ ہوا۔ اندرونِ شہر مغلپورہ والی نہر سے وزیراعظم سکیم والا سبز رنگ کا رکشہ لیا، جس کا نمبر BLU-730 رکشہ ڈرائیور کا نام حیرت خاں، گرے لباس میں ملبوس، تاجپورہ کا رہائشی، ڈرائیونگ کا تجربہ سولہ سال، کرائے کی رقم ایک سو ستر روپے، نصف جن کے پندرہ گھٹ سو ہوتے ہیں۔ ایک ہی بار کہنے پر اس شریف آدمی نے مجھے شہر کی سب سے بلند عمارت کے پہلو میں اتارا۔ اس بلڈنگ کی کل منازل سترہ، سیڑھیوں کی تعداد دو سو دس، چھت کی لمبائی پچاس فٹ، چوڑائی تیس فٹ، ٹی وی چینلز کے کیمروں کی تعداد انیس۔ ہلال کمیٹی کے باقاعدہ ممبران کی تعداد پانچ، جن میں میرا نام مفتی تفصیل الزماں مشغلہ ٹکٹیں جمع کرنا (ہر طرح کی) بچوں کی تعداد آٹھ، رہائشی مکان ملحقہ مسجد دل بہار رقبہ جس کا پندرہ مرلے ۲۷۲ فٹ والے، بیڈ روم پانچ عدد، لان میں سفیدے کا درخت، گیٹ کا رنگ سبز، چوڑائی اور اونچائی دس فٹ… اپنے دیگر چار ساتھیوں، جن میں ایک کا نام نبی بخش نیلی گاڑی والے، عمر میٹرک کی سند کے مطابق بہتر سال، فون کی بیٹری کی چارجنگ فل، سر پہ سفید ٹوپی اور پاؤں میں ملتانی کھُسہ، نہ کسی امر میں خوشی، نہ کسی بات پہ غصہ… دوسرے مولانا غلام رسول، منھ میں اصلی دانتوں کی تعداد تین، کلائی پہ پہنی راڈو کی گھڑی ذاتی، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے، تاحال زندہ… تیسرے حاجی شیر علی،حج اور عمروں کی کل تعداد ستائیس، مزید کے لیے ہمہ وقت تیار،یاروں کے یار، اونچا سنتے، اونچا سمجھتے اور اونچا ہی دیکھتے ہیں، مؤخرالذکر صفت کی بنا پر گزشتہ چھبیس سال سے چاند کمیٹی کے مستقل ممبر… چوتھے صاحب حکیم رحیم، بے حد حلیم، جن کی سگی خالہ کے گلے کی گلٹی کا پرسوں کامیاب آپریشن ہوا، اس کے باوجود یہاں سب سے پہلے موجود تھے۔ ’جلدی کام شیطان کا‘ والا مقولہ ان کے دادا جان کی ایجاد … آپ کو بتاتے چلیں کہ ہم جملہ ممبران تیرہ عدد تکنیکی معاونین سمیت اور تینتالیس صحافیوں کی موجودگی کے باوجود، ،سات گھنٹے، سترہ منٹ، چونتیس سیکنڈ کی مارا ماری کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہجری سال 1440ھ کا عید الفطر کا چاند نظر نہیں آیا۔‘‘