یوں تو بیروت کی امریکن یونیورسٹی کے قیام کی تاریخ 1866 بتائی جاتی ہے اور اسے مشرق وسطیٰ میں جدید نظام تعلیم کی سب سے قدیم یونیورسٹی کہا جاتا ہے، لیکن 1920 تک 54 سال یہ ایک مشنری سکول سیرین پروٹسٹنٹ کالج تھا۔ مشنری سکولوں کی اسی نرسری سے جدید سیکولر تعلیم کے پودے نے نشوونما پائی ہے۔ بحیرہ روم کے ساحل پر اس خوبصورت یونیورسٹی کے ماحول اور بیروت شہر کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے میں ایکدم مغربی بنگال کے ساحلوں پر بیتی کہانیوں میں کھو گیا اور یوں لگا جیسے برصغیر پاک و ہند اورعرب دنیا پر نظام تعلیم کے راستے حملہ آور ہونے کی مغربی ترکیب بالکل ایک جیسی تھی۔انہی مشنری سکولوں کی آڑ میں ہمارے مذہب، تہذیب اور معاشرت پر حملہ کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پورے مشرق وسطیٰ میں لبنان وہ واحد ملک ہے جس میں معاشرہ برصغیر کی طرح عیسائی، شیعہ اور سنی جیسے متحارب گروہوں میں تقسیم ہے اورایک بڑی اکثریت ماڈرن، سیکولر، مغرب پرست اور روشن خیال تہذیب کی گرویدہ ہے۔ یہ مشنری ادارے جنہیں مغربی تہذیب و تعلیم سے متاثر خلافت عثمانیہ کے مصر کے والی محمد علی پاشا اور اسکے بیٹے ابراہیم پاشا نے شام اور مصر میں قائم کرنے کی اجازت دی تھی۔ امریکن یونیورسٹی کے تفصیلی مطالعہ کے بعد مجھے اس بات کی تلاش تھی کہ اْس دور کے مسلمان علماء نے ان مشنری سکولوں کے بار ے میں کبھی کوئی آواز بلند کی ، بیروت کی لائبریریوں میں ایک قدیم کتاب میری نظر سے گزری جسکا عنوان چونکا دینے والا تھا "ارشاد الحیاری فی تحذیر المسلمین من مدارس النصاریٰ"۔ (مشنری سکولوں میں مسلمان طلبا کا انجام)۔ شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی کی یہ مختصر سی کتاب 68 صفحات پر مشتمل ہے جو10 محرم 1310 ہجری، یعنی آج سے تقریبا ڈیڑھ سو سال قبل شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں عیسائی مشنری اسکولوں کی تعلیم سے جس طرح عرب دنیا کے بچے متاثر ہو رہے تھے اسکا تفصیلی جائزہ لیا گیا تھا۔ میں جولائی 2011 میں بیروت کی امریکن یونیورسٹی میں کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ کاش کوئی اس کتاب کا اردو ترجمہ کر دے تاکہ ہمارے لوگوں کو بھی ان ہتھکنڈوں کا پتہ چلے۔ یہ سعادت بھارت کے شہر مبارک پور، اعظم گڑھ کے صوفی بزرگ اور جامعہ اشرفیہ کے استاد محمد فیض اللہ برکاتی مصباحی کو حاصل ہوئی جنہوں نے 2014 میں اس کا ترجمہ کر دیا اور چند ماہ قبل کتاب محل والوں نے لاہور سے شائع کیا ہے۔جیسے ہی یہ کتاب میرے ہاتھ میں آئی، مسلم دنیا کے اجڑنے اور مذہب، تہذیب و تمدن اور اخلاق و روایت کے لٹنے کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ آنکھوں کے سامنے گھوم گئی۔ آج پاکستان کے ہر بڑے شہر میں جو سیکولر، ماڈرن تعلیم کی درسگاہیں اور ادارے قائم ہیں وہ عیسائی مشنری سکولوں سے ایک طویل سفر کرتے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں کو ہر دور میں مغرب سے متاثرہ حکمرانوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ برصغیر میں سیکولر لبرل دینِ الہی کے موجد اکبر کے دربار میں عیسائی مشنری برصغیر آئے۔ ان میں سے ایک بڑے پادری نے اکبر کو اپنی بیٹی سے شادی کی پیشکش بھی کی جسے بخوشی قبول کرلیا گیا اور تاریخ میں اسے مریم زمانی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وہی مریم زمانی ہے جسے جانگیر اپنی ماں کی حیثیت کے توزکِ جہانگیری میں بار بار یاد کرتا ہے اور اسی کے نام پر اس نے لاہور کے شاہی قلعے کے اکبری گیٹ کے سامنے مریم زمانی مسجد بھی تعمیر کی ہے۔ اکبر کے دل میں نرم گوشے نے عیسائیوں کو کلکتہ میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ اسکے بعد کی تاریخ مشنری سکولوں کے قیام، زمینداروں کیلئے کوآپریٹو فارمنگ اور ہسپتالوں کی تعمیر کی تاریخ ہے۔ ان تینوں کاموں سے عیسائی مشنریوں نے کلکتہ کے تقریباپچہتر گاؤں کے باسیوں کو عیسائی بنا لیا۔ انکے تعلیمی ادارے اور رفاہی کام غریب شودر اور دلتوں پر اثرانداز ہوتے تھے۔ شیخ نبھانی نے بھی بیروت کے مشنری سکولوں میں تعلیم کا جو نقشہ کھینچا ہے، بالکل بنگال کے سکولوں جیسا ہے۔ بائبل کا پڑھایا جانا، چرچ میں خصوصی عبادت کا اہتمام، ملحد مغربی قلمکاروں کی کتابیں پڑھانا، لادینیت کی ترغیب۔ غرض ایک ایسی نسل تیار کی جا رہی تھی جو زندگی کے تمام معاملات میں سیکولر اور مغربی ماحول کی دلدادہ ہو لیکن تسکین روح کے لئے عیسائیت کو اختیار کرے،کیونکہ ایک ایسی عیسائیت کی تعلیم دی جاتی تھی جو دنیا کے کاموں میں زیادہ مداخلت نہیں کرتی۔ 1857 کے بعد انگریز حکمرانوں کو ذرا زیادہ پڑھی لکھی نسل کی ضرورت تھی جو ذہنی اخلاقی اور معاشی طور پر بھی انکے رنگ میں رنگی ہو، جیسے میکالے نے کہا تھا" A class in English, taste and intellect " ایک ایسا طبقہ جو اپنے ذوق اور تخیل کے حساب سے مکمل انگریز ہو۔ یعنی باہر سے ہندوستانی نظر آنے والا اندر سے مکمل گورا ہو۔ مشنری سکول چونکہ پرائمری اور سیکنڈری تعلیم تک محدود تھے،اسلئے ان سے متاثر ہونے والے افراد زیادہ تر نچلے طبقے کے ہندو تھے۔ مسلمانوں پر اسکے اثرات نہ ہونے کے برابر تھییہ وہ موڑ تھا جب مشنری سکولوں کی بنیاد سے سیکولر لبرل تعلیم کی داغ بیل ڈالی گئی۔ جسکا بنیادی مقصد یہ تھا کہ برصغیر کے عوام اپنی اقدار، روایات، تہذیب، معاشرت یہاں تک کہ اپنے مذہبی خیالات میں مغرب کے رنگ میں ایسے رنگ جائیں کہ دونوں میں کوئی فرق نظر نہ آئے۔ اکثر لوگ لارڈ میکالے کے 1835 کے اس مقالے کو اسکی بنیاد تصور کرتے ہیں، لیکن اس نظام تعلیم کی بنیاد پانچ سال قبل 1830 میں اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہونے والا الیگزینڈر ڈف (Alexander Duff) نے رکھی۔وہ عیسائی مشنری سکولوں کی تعلیم کا ایک نیا سسٹم لے کر کلکتہ پہنچا، اور اس نے مشنری سکولوں کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔ ڈف نے اعلی تعلیم کے ادارے کھولنے اور سیکولر مضامین پڑھانے پر زور دیا۔ اس وقت تک عیسائی مشنری سکول مقامی زبانوں میں تعلیم دیتے تھے، ڈف نے ساری تعلیم انگریزی زبان میں منتقل کروا دی۔ اسکا 1830 میں قائم کردہ سکاٹش چرچ کالج آج کی کلکتہ یونیورسٹی کی بنیاد ہے۔ اس نے یہ تصور دیا کہ اگر ہندوستان کے لوگ اس نظام تعلیم کے ذریعے مغربی تہذیب و اقدار سیکھ گئے تو وہ عیسائی ہوں یا نہ ہوں اپنے مذہب سے دورضرور ہوجائیں گے۔ اس نے برطانوی حکومت سے یہ بھی منوا لیا کہ ہندوستانیوں کو عیسائی نہیں بلکہ مغرب زدہ بنایا جائے تو مقصد پورا ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مشنری سکول جو 1790 میں قائم ہوئے سب کے سب 1920 میں سیکولر ہوگئے اور اگلے 54 سال یعنی 1974 تک بھٹو کے قومیائے جانے تک اسی تباہ کن ایجنڈے پر تعلیم دیتے رہے۔اسکے بعد کے تیس سال کشمکش کے سال ہیں۔ لیکن پرویز مشرف نے جب تمام مشنری سکول اور کالج انہیں واپس کردیے تو اسکے بعد ان اداروں کا صرف اور صرف مغربی سیکولر لبرل نظام تعلیم کا چہرہ سامنے آیا۔ وجہ یہ تھی کہ انہیں اب تجربہ ہو چکا تھا کہ مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لئے انہیں عیسائی بنانا ضروری نہیں، مغرب زدہ ملحد، سیکولر بنانا ہی کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس ملک کی اعلیٰ کلاس کے نوجوانوں کو پڑھانے والے یہ ادارے(مشنری ہو یا دیگر ) ہر سال تقریبا ایک لاکھ ملحد سیکولرنوجوان تیار کر رہے ہیں۔ ان اداروں میں دین کی بات کرنے والے افراد کا داخلہ ممنوع ہے، یہاں تک کہ میرے جیسے مغربی تعلیم یافتہ اور سول سروس کی بیک گراؤنڈ رکھنے والا شخص بھی شجر ممنوعہ ہے۔ جنید سلیم کے بیٹے نے ایف سی کالج میں اپنے باپ کو بلانے کے لیے کہا، جنید نے شرط لگائی کہ اوریا مقبول جان کو بلا کر دکھاو، منہ بسورتا ہوا واپس آ گیا، کہ میں ناکام ہوگیا۔ 25 دسمبر 2018 کو آزادی اظہارکے پرچم بردار لمز (Lums) نے مجھے قائداعظم پر بات کرنے کیلئے تقریب میں بلایا۔ آزادی افکار و اظہار کے نام نہاد علمبردار فیض احمد فیض کا نواسہ اس تقریب کا سٹیج سیکرٹری تھا۔ اس نے کہا اگر وہ آئے گا تو میں نہیں آؤں گا۔لمز کی انتظامیہ نے مجھ سے معذرت کر لی۔ الیگزینڈر ڈف نے بھی یہی پالیسی دی تھی کہ سیکولر تعلیم پڑھاؤ ، لیکن کسی مخالف کو اپنے ادارے میں گفتگو مت کرنے دو۔ خوفزدہ، متعصب اور یک طرفہ تعلیم جو ڈف نے شروع کروائی تھی مشرف نے اس کا بیچ دوبارہ بو دیا۔