ڈالراب ایک سو پچاس کی حد سے زیادہ دورنہیںاس حقیقت اور کھلے سچ کے اقرار سے فرار اب ممکن نہیں،وزیر اعظم ہوں یاوزیر خزانہ اس حوالے سے پریشان نہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ وہ سچ ہے جسے وقوع پذیر ہونا ہی تھا، ن لیگی حکومت نے معیشت کو مصنوعی سہارا دے رکھا تھا ،اور اس جھوٹے سہارے کو ٹوٹنا ہی تھا، غیر جانبدار ماہرین معاشیات و اقتصادیات حکومتی موقف کے حامی ہیں، اور جو جانبدار ہیں وہ خاموش ہیں، اس اہم ترین ایشو پر کوئی کسی کو مناظرے کا چیلنج نہیں دے رہا، عمران خان کہتے ہیں کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں مگر میں تو ڈر گیا ہوں،یہ میری زندگی کا دوسرا واقعہ ہے ڈر جانے کا، پہلی بار اس دن ڈرا تھا جب پرویز مشرف کے دور میں ایٹم بم کے ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سرکاری ٹی وی پر ایک ملزم کی حیثیت سے اعتراف کرتے اور معافی مانگتے ہوئے دیکھا تھا‘ خوف کا وہ لمحہ تو گزر گیا تھا اور خوف کا دوسرا لمحہ ابھی شروع ہوا ہے ‘جو نہ جانے کہاں تک ساتھ چلے،آپ سوچ رہے ہونگے کہ کیا میری زندگی میں خوف کا یہ دوسرا لمحہ ڈالر کی لمبی چھلانگ لینے سے شروع ہوا؟ جی نہیں۔۔۔ یہ لمحہ شروع ہوا اس خبر کے رد عمل میں جنم لینے والی دوسری اس خبر سے جس میں بتایا گیا کہ کراچی اور اسلام آباد کے تین بڑے ہوٹلوں نے بکنگ ڈالرز میں شروع کردی ہے، ریٹ کارڈز پر بھی روپے کی جگہ ڈالر لکھ دیا گیا ہے، یعنی کی پاکستانی کرنسی کو پاکستان میں ہی قبول کرنے سے انکار کر دیا گیا ہے، ہمیں یقینا حقائق کی اسی دنیا میں اس امید کے ساتھ اور اس یقین کے ساتھ زندہ رہنا پڑے گا کہ معیشت جلد یا بدیر پٹری پر واپس آئے گی، ہمارے سامنے زندہ رہنے کیلئے کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اس موضوع کو چند سطور میں یا کسی ایک یا ایک ہزار کالموں میں نہیں سمیٹا جا سکتا، بس یہ بتاتے چلیں کہ ڈالر کی چھلانگ حکومت نے نہیں لگوائی تو ذمہ داری اسٹیٹ بنک نے بھی قبول نہیں کی۔ ٭٭٭٭٭ اب ذکر اس جنگ کا جس کے تناظر میں وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ پاکستان اب کبھی دوسروں کی جنگ نہیں لڑے گا، جنگ افغانستان کو پاکستان کی تمام بیماریوں کی ماں کہا جاتا ہے، ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر پاکستان اس آگ میں نہ کودتا تو کیا خاموش رہ کر اپنی بقاکو برقرار رکھ سکتاتھا؟ جی ہاں ! یہ ذکر ہے چار دہائیاں پہلے کا جب پاکستان میں لفٹ اور رائٹ کی جنگ شدت سے جاری تھی ، امریکہ پاکستان کی مدد سے سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دے رہا تھا،رائٹ ونگز بہت خوش تھے، کہا کرتے تھے۔ اس ملک میں بے دین لوگ رہتے ہیں، مجھے اس پروپیگنڈہ پر بہت طیش آتا ، سوچتا کہ نظریات کی جنگ میں کسی کو اس حد تک نہیں گر جانا چاہئیے۔ وقت گزرتے گزرتے 1991ء میں وہا ں تک چلا آیا جب دنیا کی دوسری سپر پاور سوویت یونین کو پاکستان کی مدد سے امریکہ کے ہاتھوں تحلیل ہونا پڑا، افغانستان سے پسپائی اختیار کرنا پڑی ، رشیا سوویت یونین کے خاتمے تک اس کی ایک ریاست ہی تھا ، مگر ایک طاقتور ریاست ،، پندہ میں سے گیارہ سوویت ریاستوں کو آزادی مل گئی،اب کمیونزم کی تشریح کا وہ رخ سامنے آیا جسے اس وقت کے امریکہ نوازوں نے کبھی سمجھنے کی کوشش نہ کی، روسی تسلط سے آزاد ہونے والی کتنی ریاستوں میں مسلمان اکثریت میں تھے؟ ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان، آذر بائیجان،قاذقستان جیسی ریاستوں میں مسلمانوں کی تعداد کتنی تھی؟ کیا کبھی تحقیق کی ان دانشوروں نے کہ چاکلیٹ یا سگریٹ کے عوض فحاشی پھیلانے والوں کے مذاہب کیا کیا تھے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ تاشقند جیسے کئی شہر سالہا سال تک دنیا بھر کے لئے عیاشی کے اڈے بنے رہے،ان سالوں میں پاکستان سے آزاد ریاستوں میں جانے والے مسافروں کی تعداد کتنی ہوا کرتی تھی؟ ٭٭٭٭٭ منیر نیازی کہا کرتے تھے کہ شاعروں اور غریبوں کی محبوبائیں بھی امریکی ڈالروں کی طرح ہوتی ہیں۔۔ وہ یہ بھی فرماتے تھے کہ …محبت ایک بار نہیں بلکہ بار بار ہوتی ہے، جو کہتے ہیں محبت صرف ایک بار ہوتی ہے، وہ کسی خطرناک عارضے میں مبتلا ہوسکتے ہیں، ایسے لوگوں کو کسی میڈیکل اسپیشلسٹ کے پاس جانا چاہئیے، میں نیازی صاحب کی اس منطق سے کبھی متفق نہیں رہا، باوجودیکہ خود کئی محبتیں جوڑیں، کئی محبتیں توڑیں،میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ہر ہر دل میں ایک ہستی ایسی ضرور بستی ہے جو اس کی پہنچ سے دور، بہت دور ہوتی ہے یا دور چلی جاتی ہے، جن آنکھوں میں محبتیں سماجاتی ہیں، وہ آنکھیں جب ہمیشہ کے لئے بند ہوجاتی ہیں تب بھی ان آنکھوں سے وہ پرچھائیاں چرائی نہیں جا سکتیں،،، یہ زیادہ پرانی بات نہیں جب سلور اسکرین کی ساحرائیں دلوں پر راج کیا کرتی تھیں ، جوان تو جوان، بابے بھی اپنی اپنی محبوب ہیروئن کی تصویر بٹوے میں رکھا کرتے تھے، 50اور60 کے عشرے کے جو لوگ اب تک زندہ ہیں، ان میں بھی ہزاروں ایسے ہوں گے جن کی تلاشی لی جائے تو نوتن،سادھنا، نرگس ، وجنتی مالا، مینا کماری، مدھو بالا، نمی، ہیما مالنی، نیلو، نئیر سلطانہ، صبیحہ، مسرت نذیر، شمیم آراء ، زیبا، شبنم، دیبا،آسیہ ، نغمہ یا فردوس میں سے کسی ایک کی فوٹو ضرور برآمد ہو گی اپنی پسندیدہ ہیروئن کو جیب میں رکھنے کا رواج آج کل نہیں ہے، وجہ شاید یہ ہو کہ اب ان جیسی جادوگرنیاں کہاں ؟ شو بز کی شہزادیوں کے بارے میں ان کے عاشقوں کا خیال ہوتا ہے کہ وہ گوشت پوست کی نہیں پلاسٹک کی بنی ہوتی ہیں، جو کبھی کھانستی ہیں نہ ڈکار لیتی ہیں، یہ عشاق سمجھتے ہیں محبوبہ باربی ڈول ہوتی ہے، جس کے ناخن نہیں بڑھتے، جسے کبھی تھکاوٹ نہیں ہوتی، جسے کبھی نزلہ زکام ، بخار بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔۔لوگوں کی بات چھوڑیے جناب۔ میں اپنی بتاتا ہوں، ایک دن جوہر ٹاؤن میں سنگیتا کے صحن میں بیٹھا تھا کہ اچانک اس نے بڑے زور سے چھینک ماری، میں سہم گیا ،ابھی سنبھلا ہی نہ تھا کہ اس نے گلے کی بلغم نکالنے کے لئے پوری قوت سے کھنگورا مارا، میں اور سہم گیا،ایسا لگا جیسے امریش پوری کے گھربیٹھا ہوں تین چار دہائیاں پہلے تک طول و ارض سے لوگ اپنی فلمی محبوباؤں کی ایک جھلک دیکھنے نگار خانوں کے باہر کھڑے ہوا کرتے تھے، نگار خانوں کے چوکیدار اور ملازمین رشوت لے کر ان عاشقوں کو ان کی محبوب ایکٹرسوں کی ایک جھلک دکھلا دیا کرتے تھے ، ان فلمی محبوباؤں میں سے رانی نے بھی لاکھوں دلوں پر کئی سال تک راج کیا، حسن طارق کی فلموں میں رانی کے ڈانس نے اس کے مداحوں کو بہت متاثر کیا، رانی کا ایک ایک انگ دوسری ہمعصر ایکٹرسوں کے پورے پورے ڈانسز پر بھاری ہوتا، ثریا بھوپالی جیسے کرداروں نے تو رانی کو دلوں کی رانی بنا دیا،رانی کا تعلق مزنگ کے ایک غریب گھر سے تھا، اس کاباپ مختار بیگم کا ڈرائیور تھا،غریب ڈرائیور نے اپنی بیٹی، اچھی تربیت کی خواہش میں مختار بیگم کی جھولی میں ڈال دی تھی، رانی طبلے سارنگیوں کی دھنوں کے آنچل میں جوان ہوئی، اسے بہترین اساتذہ نے رقص کی تعلیم دی، فلم نگر میں آئی تو منحوس قرار پائی لیکن پھر قدم ایسے جمے کہ لوگ عش عش کر اٹھے، حسن طارق اور سرفراز نواز سمیت تین چار خاوند ہوئے، اور ایک بیٹی کی ماں بن جانے کے باوجود رانی کے چاہنے والوں کی تعداد کم نہیں ہوئی تھی ، ایک دن رانی کا ایک دیوانہ کسی دوسرے شہر سے باری اسٹوڈیوز کے گیٹ پر پہنچا، کئی گھنٹوں کی خواری کے بعد اسٹوڈیو کے ایک ملازم نے مٹھی گرم کرکے اسے رانی کی جھلک دکھانے کی حامی بھری اور اسٹوڈیو کے اندر لے گیا، ایک فلور پر مظہر شاہ کی ذاتی فلم ’’محرم دل دا‘‘ کی شوٹنگ ہو رہی تھی، رانی سیٹ پر موجود تھی، اسٹوڈیو کا ملازم پروڈکشن مینجر کا ترلہ کرکے رانی کے اس عاشق کو سیٹ پر لے گیا، اگلے شاٹ کی تیاری ہو رہی تھی۔ رانی ایک ہاتھ میں شیشہ پکڑے فلور کے ایک کونے میں کھڑی تھی ، پرستار بت بنا اسے دیکھ رہا تھا. اسی دوران رانی شاید ناک صاف کرنے کیلئے اپنی انگلی لبوں کے قریب لے کر گئی تووہ پرستار اسٹوڈیو ملازم کی جانب منہ کرکے زور سے چیخا۔۔۔ بھائی جی، رانی بھی ناک صاف کرتی ہے؟