مدینے کے اور اس عہد کے سب سے جلیل القدر محدث ضیاالرحمٰن اعظمی صاحب بھی رخصت ہوگئے۔کس کمال کے دن ،کس کمال کا آدمی، کس کمال کی جگہ جا سویا۔حج اکبر کا مغفرت بھر ا دن ،زمانے کا محدث ، مسجد نبوی میں جنارہ ، بقیع میں قبراور ایک عالم سوگوار۔اعظمی صاحب کی کہانی کا ہر ورق سنہری ، ہر سطر زریں اور ہر موڑ اجلا ہے۔ سولہ برس کی عمر میں وہ ہندو سے مسلمان ہوئے، جان بچاتے، چھپتے چھپاتے اورہجرتیں کرتے جنوبی ہند جا پناہ لی ، وہاں عربی سیکھی اور پھرنصیبہ یوں جاگا کہ مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم اورشہررسول کی مہکتی گلیوں میں گلگشت نصیب ہوگیا۔جذبہ ایسا صادق کہ نو مسلم ہونے کے باوجود جدی مسلمانوں سے ہی نہیں اپنے عصر سے بھی آگے بڑھ گئے۔ وقت کے سب سے بڑے محدث ہوئے اور اس مقام تک پہنچے کہ آئندہ صدیاں ہم جیسے خاندانی مسلمانوں کو تو بھلا دیں گی مگر اس شخص کی عظمت کو کبھی فراموش نہ کر سکیں گی۔کہنے کو اعظمی صاحب انڈیا سے تھے مگر اصل میں ان کا تعلق اس قبیلے سے تھا جو پہلی صدیوں میں حدیث کے سورج ہو گزرے۔ یہ حدیث لکھنے والے آسمان کے ہمارے عہد میں چمکتے والے تارے تھے۔ایسے کہ جس کی روشنی کبھی ماند نہ ہوگی۔امت کو کبھی خبر ہوگی کہ یہ شخص امت کے لیے کیا کر گیا، اس لیے کہ بہت عظیم چیزیں قریب سے کامل نظر نہیں آیا کرتیں۔ قیامت تک امت اس شخص کے جاری کردہ چشمہ حدیث سے فیض لیتی رہے گی۔ آنجناب کا سب سے بڑا کارنامہ تو’ الجامع الکامل‘ نامی حدیث کی حیران کن کتاب ہے۔اپنے دور اور اپنی طرز کی اسے آپ صحیح بخاری کہہ لیجئے۔ اٹھارہ جلدوں میں تمام صحیح احادیث کا مجموعہ ان میں سمٹ آیا ہے۔یہ ایسا کام ہے تاریخ میں جو کبھی نہ ہوا تھا۔ دارالسلام نے اسے شایان ِ شان طبع کیا۔جس طرح اللہ کے کلام پر مشتمل قرآن امت ایک ہی جگہ اکٹھا دیکھتی ہے ،اسی طرح اگراسے محمد عربی ﷺ کا کل صحیح کلام دیکھنا ہو تو اسے اس محدث کی یہ کتاب سینے سے لگانا ہوگی،اس سے پہلے حدیث کی یہ صورت گری نہ ہوسکی تھی۔یہ بھی کم نہیں مگر امت پر ان کاایک اور احسان بھی کمال کا ہے۔ اگرچے کچھ تذکرے ہوئے، مثلاً کرشمہ ساز قلمکار عرفان صدیقی صاحب اور محترمہ لبنیٰ ظہیر صاحبہ نے اپنے قلم اس شخص عظمت آشکار کی۔اس محدث کے کمال کا دوسرا پہلو مگر کالموں میں نہ آسکا،حالانکہ وہ بھی جامع الکمال ہے۔حدیث ہمیشہ سے مستشرقین کی تنقید کا ہدف رہاہے۔تنقید کی بنیادی باتوں میں سے دو شخصیات پر جرح ہے۔ ایک صحابی رسول سیدنا ابو ہریرہ ؓپر اور دوسرے امام زہری رحمہ اللہ پر۔آج کے سوشل میڈیا پر دکانیں لگانے والے کئی لوگ یہی چبائے ہوئے نوالے اگلا کرتے ہیں۔اعظمی صاحب نے کارنامہ یہ کیا کہ ان میں سے آدھی دکانیں اپنے ماسٹر کے تھیسس میں ہی منہدم کر ڈالیں۔بات ذرا سمجھنے کی ہے۔ مستشرقین کا اعتراض یہ ہے کہ سیدنا ابو ہریر ؓ فتح خیبر کے بعد اسلام لائے اوررسولِ رحمت کے ساتھ کوئی چار برس رفاقت رہی۔ اس مختصر عرصے میں مگر وہ سب سے زیادہ حدیث روایت کرتے ہیں۔چار سالہ صحبت والا کیسے طویل رفاقتوں کو پیچھے چھوڑ گیا؟ یہ بات عہد صحابہ میں بھی لوگوں کو حیران کرتی تھی ۔ سیدنا ابو ہریرہؓ اس کا جواب یہ دیتے کہ جب مدینہ کے مرد روز گار اور خواتین بنائو سنگھارمیں مگن ہوتے ،بھوکے پیاسے غش کھاتے ابوہریرہؓ تب بھی رسول رحمت کے لفظوں کے موتی چننے کو موجود رہا کرتے۔یہ اعتراض امت کی گردن پر صدیوں سے بوجھ تھا، جواب ہمیشہ ایمان سے دیا گیا۔ ایمان والوں کے لیے جو کافی تھا، عقل کو برتر ماننے والے مگرایمان کی کب مانتے ہیں؟ یہ فرق ضروری بھی ہے، ورنہ صحابہ اور ابوجہل میں فرق کیسے ہوتا؟ فرق ایمان نے ڈالا۔ بہرحال صدیوں تک یہ بوجھ اپنے کندھوں پر لیے امت مسلمہ جیتی رہی تاآنکہ اللہ نے یوپی کے بانکے رام کو چنا اور اسے مدینہ پہنچا کے سیدنا ابوہریرہ ؓ کے دفاع میں سائنسی اعتبار سے سرخرو فردیا۔اپنی تحقیق میں محدث نے لوگوں کو یہ بتایا کہ محدثین جب حدیث کی تعداد بتاتے ہیں تو اس سے ان کی مراد کیا ہوتی ہے؟ جب ایک ہی فرمان رسولﷺ کو بیان کرنے والے زیادہ ہو جائیں تو محدثین کے نزدیک ہر بیان کرنے والے کے اعتبار سے حدیث الگ شمار ہوتی ہے۔کیوں کہ اس میدان میں بیان کرنے والے کی اپنی اہمیت ہے۔یعنی اگرایک حدیث بیان کرنے والے دس افراد ہیں تو یہ ایک ہی فرمان ہونے کے باوجود ایک نہیںدس حدیثیں شمار ہوں گی۔اس کے بعد شیخ نے بیڑہ اٹھایا کہ سیدنا ابوہریرہ ؓ کی کل احادیث کتنی ہیں؟حدیث کی کتب کا احاطہ کرنے کے بعد شیخ اعظمی کی تحقیق یہ تھی کہ سیدنا ابوہریرہؓ کی بیان کردہ کل احادیث 2000 سے زیادہ ہر گز نہیں،انھوں نے اس پرریاضی کا کلیہ لگایا۔ بیان کردہ احادیث کوسیدنا ابوہریرہ ؓکے رسول رحمت کی خدمت میں حاضر رہنے کے چار سالہ ایام یعنی دو ہزار دنوں پر تقسیم کیا گیا تو نتیجہ محض یومیہ دو احادیث نکلا۔ ظاہر ہے جو شخص زندگی تیاگ کے چوبیس گھنٹے بھوکا پیاسا در رسول پر بیٹھ رہتا ہو، نہ کمانے جاتا ہو اور نہ کھانے کے لیے مجلس رسول چھوڑتا ہو،کیا اس نے چوبیس گھنٹوں میں دو فرامینِ رسول بھی نہ سنے ہوں گے؟ پھریہ کہ ان میں سے بیشتر احادیث کے راوی سیدنا ابو ہریرہ اکیلے ؓنہیں،یہی احادیث دیگر صحابہ سے روایت ہوئیں۔چیزیں مشکل رہتیں ہیںجب تک کسی کے ذہن اللہ گرہ نہ کھول دے۔ جب اللہ کسی مسئلے کو حل کرنے کی حکمت عطا فرمادے تو مشکلات ایسے ہی پانی ہو جاتی ہیں۔ کس قدر سادہ بات محسوس ہوتی ہے صدیوں سے جس کی گرہ نہ کھلی ۔ ایسی بلندی مگر عبقریوں کوہی نصیب ہوتی ہے۔ اس تحقیق نے علمی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ خاص طور پر سعودی عرب میں ا س عجمی کی تحقیق کو خوب پذیرائی ملی۔ اخبارات ، ٹی وی اور علمی حلقوں میں اس کے خوب تذکرے ہوئے اور یو پی کے بانکے رام نے صدیوں کا قرض لمحوں میں چکا دیا۔ افسوس یہ تحقیق ابھی فیس بک کے بعض قاریوں تک نہیں پہنچ پائی اور وہ بدستور مستشرقین کے چبائے نوالے اگل رہے ہیں۔ موت کا وقت مقرر ہے ۔چنانچہ امت کا یہ محسن بھی اسی قبر میں جا اترا جس میںہم سب کو اترنا ہے، ایسے اعزاز سے اترتا مگر کوئی کوئی ہے۔