ان کا ایک قرض مجھ پر ایک عرصے سے واجب الادا چلا آ رہا ہے۔ بہت دنوں سے ان پر لکھنے کا وعدہ ہے۔ مگر لکھ نہیں پا رہا۔ رہی یہ قوم تو اس کے لیے یہ قرض ادا کرنا آسان نہ ہو گا۔ الطاف حسن قریشی کے بارے میں شامی صاحب کا یہ فقرہ ہی سب کچھ کہہ جاتا ہے کہ اگر وہ نہ ہوتے تو ہم میں سے کوئی نہ ہوتا۔ مجھے قسم ہے اس قلم کی جو لوح ابد کی حقیقتوں کی امین ہے کہ میں صدق دل سے اس بات کی تائید و تصدیق کرتا ہوں۔ وہ ایک دبستان ہیں۔ ہم سب نے انہی کیاریوں میں جڑیں پکڑیں جو الطاف صاحب نے سیراب کر رکھی تھیں۔ اس دن ان کی کتاب کی تقریب رونمائی تھی یہ ان دنوں آنے والی ان کی دوسری کتاب ہے۔ پہلے تو ان انٹرویوز کا مجموعہ ہے جو انہوں نے تاریخ کے ایک خاص دور میں ان شخصیتوں کے کئے جو بلا شبہ منتخب تھیں روزگار کی‘‘ اب ان کی جو کتاب سامنے آئی ہے وہ جنگ ستمبر کے پس منظر میں ہے۔ جب پاکستان بنا تھا تب ہماری صحافت میں تو شاید اتنی وسعت نہ تھی کہ وہ اس عہدکو اپنی مٹھی میں بند کر لیتی۔ مگر ہمارے ادیب کے تخلیقی ذہن نے لازوال شاہکار تخلیق کر کے اس عہدکی تاریخ کو محفوظ کر رکھا ہے۔ تاہم 65ء کی خوش قسمتی تھی کہ اس وقت کے ذرائع ابلاغ نے نہ صرف اس جنگ میں باقاعدہ حصہ لیا‘ بلکہ اسے اس پیرائے میں محفوظ کیا کہ جس کا کوئی ثانی نہیں ہے یہ تاریخ بھی ہے‘ تاریخ کا مواد بھی‘ صحافت بھی ہے اور ادب کا انداز بھی مستقبل کا کوئی مورخ اس سے صرف نظر نہیں کر سکے گا۔ سچ پوچھئے تو اس عہد کی تاریخ جس طرح الطاف حسن قریشی سے لکھ ڈالی ہے اس نے اس قوم کے دلوں کی دھڑکنوں کو محفوظ کر دیا ہے۔ اصل میں اس تقریب کا احوال لکھنا چاہتا ہوں جو اس اتوار کو ظفر علی خاں ٹرسٹ کے خوبصورت ہال میں منعقد ہوئی۔ یہ خوبصورت چھوٹا سا ہال پہلی بار گویا ’’عوام‘‘ کے لیے کھلا ہے۔ رئوف طاہر اس کے سیکرٹری بنے ہیں تو وہ یہاں رونق لگانے کا بندوبست کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس کتاب کی تقریب رونمائی ہو چکی تھی۔ تاہم اسے ایک الگ انداز میں دوبارہ منتخب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ حالات بھی کچھ ایسے تھے ۔ ایک تو ابھی ابھی ہم نے چھ ستمبر کو دوبارہ قومی سطح پر منانے کا عزم کیا ہے اور اس بار خوب منایا ہے۔ دوسرا بھارت نے ہمارے ساتھ ایک نیا جھگڑا شروع کر رکھا ہے۔ وہاں انتخابات ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی نئی حکومت نے خیر سگالی کے طور پر نئی راہیں تراشنے کے لیے اقوام متحدہ کے اجلاس کے باہر کہیں وزرائے خارجہ کے مل بیٹھنے کی بات کی تو بھارت نے بڑی سوچ بچار کے بعد اسے قبول کر لیا۔ اس ایجاب و قبول کو ابھی دو دن بھی نہ گزرے تھے کہ بڑی بدتمیزی سے اس رضا مندی کو واپس لے لیا گیا۔ بے تکے الزامات بھی لگائے اور بھارتی آرمی چیف نے تو دھمکیاں بھی دے ڈالیں۔ ایسی فضا میں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب کتنی اہم ہو جاتی ہے۔ بولنے والوں میں خورشید قصوری صدارت کر رہے تھے جو پاک بھارت تعلقات کے عمل میں ایک طویل عرصہ تک وزیر خارجہ کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ خالد مقبول تھے جو پنجاب کے بڑے جاندار گورنر رہے ہیں اور ایک مہمان تو گویا 65ء کا ایک افسانوی کردار تھا۔ میجر نادر پرویز نے رن آف کچھ‘65ء اور اس کے بعد 71ء کی جنگ میں بھی حصہ لیا ہے۔ وہ جنگی قیدی بھی رہے ہیں۔ باقی وہ لوگ تھے جنہوں نے الطاف صاحب سے براہ راست فیض پایا ہے۔یا ان کی پیدا کی ہوئی صحافتی تحریک و تحرک کی فضا میں جنم لیا ہے۔ مجیب شامی تھے جو درست کہتے ہیں کہ الطاف صاحب سے سب سے زیادہ فیض انہوں نے پایا ہے۔ ارشاد عارف تھے‘ سلمان غنی تھے‘ سلمان عابد‘ عطاء الرحمن سبھی تھے جو اپنے اپنے انداز میں الطاف صاحب کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا 65ء کی جنگ کی دستاویزی شہادتیں ایک کمال تخلیقی انداز میں جاری ہوئیں اس وقت الطاف صاحب اردو ڈائجسٹ نکال چکے تھے۔ غالباً 5‘6برس ہو چکے تھے یہ پودا جڑ پکڑ چکا تھا۔ ذہنوں کو بدل دیا تھا کہ جنگ شروع ہو گئی۔ کہتے ہیں قومیں اپنے بحران میں پہچانی جاتی ہیں اس جنگ نے پوری قوم میں یکجہتی کی ایک ایسی فضا پیدا کی کہ کسی کو شک باقی نہ رہا کہ پاکستانی ایک قوم ہیں۔65ء نے پاکستان کو اس کی پہچان دلوائی ہمارے ادیب نے قلم پکڑا اور اس کے ہر لمحے‘ ہر واقعے اور ہر کردار کو محفوظ کرنا شروع کر دیا۔ الطاف صاحب نے یہ کام گھر بیٹھے نہیں کیا۔ محاذ پر گئے۔ مورچوں تک پہنچے‘ دور دراز کا سفر کیا جنگ کے ایک ایک لمحہ کے چشم دید گواہوں کو تلاش کیا۔ جنگی حکمت عملی تیار کرنے والوں سے ملے اور لکھتے ہی گئے۔ ان کا قلم اس بیانیے کے لیے ایک شان رکھتا تھا جو کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے‘ جس میں صدق دل کی مہک محسوس ہوتی ہے۔ ڈائجسٹوں کی دنیا میں ایک انقلاب آ گیا۔ سیارہ ڈائجسٹ بھی اس راہ پر چل نکلا۔ ایک فوجی نے حکایت نام سے ایک نیا ڈائجسٹ شروع کر دیا۔ لاہور کے ڈائجسٹوں میں اب شکار کے قصے کم ہوتے تھے ؟ پڑھنے والوں کو 65کی جنگ کی روداد کا انتظارہ زیادہ رہتا تھا۔ ایک نیا ادب تخلیق ہو رہا تھا۔ ایک نئی صحافت نموپا رہی تھی۔ شجاعت کی نئی داستانیں لکھی جا رہی تھیں۔ اس میں ادب کی چاشنی بھی تھی اور حقیقت سے رشتہ بھی۔ اسلامی تاریخی ناول تو لوگ پڑھتے ہوئے جانتے ہیں کہ ان میں خیالات کی آمیزش ہے۔ مگر ناولوں اور داستانوں سے بھی خوبصورت تر یہ کہانیاں پڑھ کر قاری کو جہاں ایک ادبی ذائقہ محسوس ہوتا تھا وہاں اس بات کا یقین بھی ہوتا تھا کہ اس میں بیان کی گئی ہر بات سچ پر مبنی ہے۔ ایسا ناولوں میں تو نہیں ہوتا اس لیے لوگ پھبتی کستے ہیں کہ تاریخی ناول نہ تاریخ ہوتا ہے نہ ادب؟ مگر 65ء کے یہ بیانیے تاریخ بھی تھے اور ادب بھی۔ پہلی بار افسانوی حقیقتیں سچ کے سوا اور کچھ نہ تھیں۔ الطاف صاحب نے صرف یہ کام نہیں کیا بلکہ اس عہد کا تجزیہ کر کے ایک نسل کی تربیت بھی کرتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الطاف صاحب نے یہ ثابت کر دیا کہ اپنی فکر سے وابستہ رہتے ہوئے اعلیٰ درجے کی صحافت کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے اردو ڈائجسٹ نکالا تو وہ ماہناموں میں نئی طرز کے موجد ٹھہرے۔ انہوں نے سیاسی ہفت روزہ زندگی جاری کیا تو یہ اردو ہفت روزوں میں ایک نئے انداز کی ابتدا تھی۔ میں چونکہ اس ہفت روزے سے وابستہ تھا۔ اس لیے فخر سے کہتا ہوں کہ ہم نے اردو میں سماجی سیاسی تجزیوں کی نئی زبان کو متعارف کرایا اور یہ سب کچھ الطاف قریشی صاحب کے زیر اثر ہوا۔ اس ٹیم کے ایک ایک فرد نے بہت نام کمایا۔ مختار حسن ‘ سعود ساحر‘ ممتاز اقبال ملک کے بعد اس قافلے میں ارشاد عارف‘ رئوف طاہر‘ عامر خاکوانی‘ اسد اللہ غالب ‘ شریف کیانی اور جانے کتنے لوگ شامل ہوئے۔ ہم سے پہلے بھی کچھ لوگ تھے جو اسی دبستان کے پروردہ ہیں‘ مثلاً ضیاء شاہد‘ مقبول جہانگیر ‘ آباد شاہ پوری ایک پورا دبستان ہے۔ ہاں ایک بات رہ گئی جب الطاف صاحب نے روزانہ صحافت میں قدم رکھا تو جسارت کی شکل میں نظریاتی صحافت کوایک نیا اچھوتا اسلوب عطا کیا۔ جہاں جہاں گئے ایک داستان چھوڑ آئے۔ اس وقت میں اس دبستان پر نہیں لکھ رہا۔ الطاف صاحب کی اس کتاب کے حوالے سے گفتگو کر رہا ہوں۔ الطاف صاحب کی اس زمانے کی یہ سب تحریریں جہاں اپنی مثال آپ ہیں اور ان کی تاریخی ‘ ادبی اور صحافتی اہمیت بھی ہے‘ وہاں انہوں نے آغاز میں ایک کمال کا ابتدائیہ لکھا ہے۔ یہ کوئی 50صفحات سے زیادہ کی تحریر ہے۔ عام کتابی صورت میں چھاپی جائے تو شاید 100صفحات بن جائیں۔ پاکستان کی تاریخ اس کا پس منظر اور نظریاتی منظر نامہ سب اس میں آ گیا ہے میں نے تو الطاف صاحب سے درخواست کی تھی کہ اسے الگ سے ایک کتابچے کی شکل میں چھاپا جائے۔ ایک مشورہ یہ ہے کہ اسے اور وسیع کر دیا جائے وہ کام تو جب ہو تب ہو۔ فی الحال اگر اسے ہی چھاپ دیا جائے تو یہ پاکستان کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔ پاکستان بننے سے پہلے ہندو ذہنیت سے لے کر‘ وہ مراحل جن سے ہم گزرے اور شاید اب تک گزر رہے ہیں۔ اس پر اس سے زیادہ عمدہ اور جامع تحریر نہیں ہو سکتی۔ یہ وہی شخص لکھ سکتا ہے جسے اس تاریخ کا ایسا گہرا شعور ہو گویا وہ سب کچھ اس کی نگاہوں کے سامنے ہو۔ مجھے نہیں علم کہ الطاف صاحب نے یہ سب لکھنے کے لیے کتابوں سے مدد لی ہو گی یا نہیں۔ ان کا تو حافظہ ماشاء اللہ ایسا ہے کہ ہر بات ایک تصویر کی طرح ان کی نگاہوں کے سامنے ہوتی ہے۔ میں نے اس کے بے شمار مظاہرے دیکھے ہیں۔ اس دن اور بھی بہت سے بھید کھلے۔ ایک تو مثلاً یہ کہ خاں محمود صاحب صرف پی سی بی کے چیئرمین ہی نہیں رہے یا ظفر علی ٹرسٹ کے سربراہ ہی نہیں ہیں‘ انہوں نے طالب علمی کے زمانے سے الطاف صاحب سے براہ راست پڑھا بھی ہے۔ ایک طرح سے وہ ان کے اتالیق تھے۔ دوسرے میجر نادر پرویز نے جنگوں کے ایسے واقعات سنائے جن کا کم لوگوں کو علم ہو گا۔ وہ خود بھی تو اس جنگ کا ایک افسانوی کردار ہیں۔ خورشید قصوری بلا شبہ اس دور کے راز داں ہیں جو مشرف کی گرد میں لپٹا ہوا ہے ‘ مگر جب قصوری صاحب واقعات سے پردہ اٹھاتے ہیں تو پتا چلتاہے کہ ہماری ریاست ہر دور میں متحرک رہتی ہے چاہے ملک میں کسی کی بھی حکمرانی ہو۔ ہاں جنرل خالد مقبول بھی تو تھے جو جنگ اور امن کے درمیان ایک ایسی کڑی بنتے نظر آئے جسے آج کل سول ملٹری تعلقات کا ایک صفحے پر ہونا کہتے ہیں۔ کیا عمدہ تقریب تھی۔