جے پور سنگ مرمر اور پیتل کی اشیاء کے لیے مشہور ہے۔اب ظاہرہے کہ یہ بھاری چیزیں تو سوغات کے طور پر خرید کر گھر لانا مشکل تھا۔میں نے اودے پور سے چلتے ہوئے جناب احمد فراز سے پوچھا کہ جے پور سے کیا سوغات لینا بہتر ہوگا۔فراز صاحب جے پور جاچکے تھے اور اس کا تجربہ رکھتے تھے۔وہ بولے اگر دلائیاں لے سکو اور ہوائی سفر میں ساتھ لے جاسکو تو وہ بھی جے پور کی سوغات ہے ۔یہ ایک قیمتی مشورہ تھا۔ممکن ہے دلائی کا لفظ بعض قارئین کے لیے نیا ہو۔دلائی ایک ایسی پتلی رضائی ہے جو کم سردیوں میں استعمال ہوتی ہے ۔فراز صاحب نے کہا کہ یہ اتنی نرم ہوتی ہیں کہ تہ کرکے بہت چھوٹی سی بن جاتی ہیں۔فراز صاحب نے یہ لفظ استعمال کیا تو جوش ملیح آبادی کی رباعی جو بہت سال پہلے پڑھی تھی ،یاد آگئی ۔حافظے نے اگر کسی لفظ میں رد و بدل کردیا ہو تو معذرت ۔ صد شکر کہ پھر آئے شہابی جاڑے کلیوں میں بسے ہوئے حبابی جاڑے ہلکی پھلکی دلائیوں کے قابل شیریں ، نورس،خنک گلابی جاڑے سو ہم نے بازارکے لیے بھی وقت نکالا۔سب نے اپنے اپنے گھروں کے لیے دلائیاں خریدیں ۔واقعتا بہت گرم اور نرم ثابت ہوئیں اور میرے گھر میں تو اب تک کام آرہی ہیں۔ راجستھان بھی اپنے پھیلاؤ کے اعتبار سے کافی بڑا صوبہ ہے۔جنوب میں مرکز سے نسبتا ًقریب ہونے کا اسے فائدہ بھی پہنچا اور نقصان،فائدہ تعلیمی ، تہذیبی ، انتظامی اثرات کے تحت بھی ہوا اور دلی کے حکم رانوں سے قرب کے نتیجے میں بڑے عہدوں پر فائز ہونے کا بھی۔دوسرے دور دراز صوبے ان فوائد سے کم مستفید ہوپائے ۔لیکن دوسری طرف نقصان یہ ہوا کہ دارالحکومت دہلی سے قریب ہونے کی وجہ سے نیز بہت سے مالی فوائد حاصل کرنے کی غرض سے دلی کے ہر حکمران کی نظر اس صوبے پر پڑتی تھی۔راجپوت جنگ جو بھی تھے اوربہادر بھی ۔لیکن مغلوں کی مختلف حکمت عملیوںنے انہیں تسخیر کرلیا۔فوج کشی سے لے کر راجپوتوں میں شادیوں تک مغلوں نے انہیں اپنا بنا لینے کی سر توڑ کوششیں کیں۔یہ ساری کوششیں کامیاب رہیں اور بالآخر راجپوت سردار مجموعی طور پر وفادار ساتھی اور جاں نثار سردارثابت ہوئے ۔ جنگجو قبائل سے قطع نظر راجستھانی صلح جو قوم محسوس ہوئے ۔جن لوگوں سے ہمارا رابطہ رہا یا واسطہ پڑا ،وہ میٹھا بول بولتے تھے اور مہمانوں کی قدر کرتے تھے۔ آنکھیں ۔راجستھانیوں کی آنکھیں بہت ہی بولتی آنکھیں ہیں۔مردوں اور عورتوں کے رنگ گہرے گندمی یا سیاہی مائل سہی لیکن ایک عجیب طرح کی نمکینی ہے ان خد و خال میں۔اور پورے چہرے پر ان کی آنکھیں سب سے پہلے اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔راجستھانی شوخ رنگ کی پگڑیاںجو ایک منفرد انداز میں باندھی جاتی ہیں،عورتوں کے شوخ رنگوں کے کپڑے اس مٹیالی فضا میں بھی پھولوں کی طرح محسوس ہوتے ہیں۔جے پور کے بازاروں میں گھومتا ، اس کی مڑتی گلیوں میں اپنے قدموں کے نشان ثبت کرتا میں خود کو صدیوں پر چلتا ہوا محسو س کرتا تھا۔ہم نے بغداد کی رونق کے قصے، اس کی طلسمی شاموں اور الف لیلوی راتوں کی داستانیں پڑھی تھیں۔بغداد کو شاید اپنا طلسم بیان کرنے کے لیے زبان مل گئی تھی۔پھر ایک بہت بڑی زبان اور ہزار سال سے بھی زیادہ قدیم تاریخ اس کی پشت پر تھی ۔جے پور کے پاس ان میں سے کچھ نہ تھا ۔لیکن ایک چیز وافر تھی ۔ طلسم اور جادو۔وہ طلسم جو آنکھوں سے سیدھا دل میں اتر جاتا تھا اور وہ جادوجو سر چڑھ کر بولتا تھا ۔اس کی یہی زبان ، یہی تاریخ اور یہی تہذیب تھی ۔دہلی ، آگرہ ، لکھنؤ،بدایوںہندوستان میں مسلم تہذیب کے دمشق تھے لیکن جے پور راجپوت تہذیب کا بغداد تھا۔اور من ساگر جھیل کو چھو کر آنے والی ہوا ان راتوں کی کہانیاں سرگوشیوں میں کہتی تھی ۔ ہم جے پور سے واپس دہلی شاید جہاز سے پہنچے تھے۔لیکن اس وقت ٹھیک سے یاد نہیں آرہا۔اگلے ہی دن دہلی سے لاہور، پاکستان کی فلائٹ تھی ۔لاہور کی فلائٹ کے لیے پہنچے اوربورڈنگ پاس لینے کے بعد سامان سکیننگ کے لیے قطار میں لگے تو دور سے باکما ل نثر نگار انتظار حسین بھی آتے دکھائی دئیے ۔ان کے دونوں ہاتھوں میں سامان تھا۔میرے ہاتھ میں بھی سامان تھا لیکن میں نے بڑھ کر ان سے سامان لے لیا۔ذرا ہی دیر میں احمد فراز بھی آتے دکھائی دئیے۔ان کے ہاتھوں میں بھی تھیلے تھے۔خواہش کے باجود اب میرے ہاتھوں میں ان سے سامان لینے کی گنجائش نہیں تھی ۔اور یہ اچھا ہی ہوا ۔وہ قطار میں پیچھے کھڑے ہوگئے ۔کچھ دیر بعد دیکھا تو وہ قطار سے غائب تھے۔ہال میں نظر دوڑائی تو دیکھا وہ دور کسی کاؤنٹر پر کھڑے ہیں۔ لاؤنج میں پہنچے تو کچھ دیر بعدآسٹریلیا کے ہاتھوںچیمپینز ٹرافی فائنل کی شکست خوردہ ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم بھی تھکی ہاری، منہ لٹکائے نشستوں پر ڈھیر ہوگئی ۔ہار کا اپنا غم ہوتا ہے اس کی تلخی اس لیے بڑھ گئی تھی کہ بارش کی وجہ سے آسٹریلیا مشہور متنازعہ ڈک ورتھ فارمولے کے تحت جیتا تھا ۔اب ویسٹ انڈیز پاکستان کے دورے پر لاہور جارہی تھی۔ پاکستانی کرکٹ مبصر رمیض راجہ ،عاقب جاوید اور دیگر بھی اسی فلائٹ سے واپس لاہور جارہے تھے۔اور مسلسل ہندوستانی کرکٹ بورڈ کے متعصب رویے پر تبصرے کر رہے تھے۔پرواز میںقابل ذکر بات یہ تھی کہ فراز صاحب ، امجد صاحب اور میری سیٹیں ساتھ ساتھ تھیں اور ویسٹ انڈیز کا معروف کرکٹر برائن لارا مجھ سے اگلی نشست پر تھا۔وہ سارا وقت موبائل پرویڈیو گیم کھیلتا رہااور اپنے ساتھیوں سے بھی گپ شپ کے موڈ میں نہیں تھا۔ اس سہ پہر پیروں نے اپنا دیس ، اپنی مٹّی اور اپنا شہر چھوا ،ہاتھوں نے اس کا لمس محسوس کیا اور ذائقے نے سیراب کرتے ،ٹھنڈے ،میٹھے پانی کے گھونٹ حلق میں اتارے تو اندازہ ہوا کہ میں ان سب کے لیے کتنا ترس رہا تھا۔ تم نے کیسا سبز کیا ہے اور کیسی ویرانی کو