گزشتہ اتوار کو شائع ہونے والے کالم’’ بے تیغ لڑنے والے مجاہدوں کی بپتا‘‘ پر شیخ زید ہسپتال لاہور اور نشتر ہسپتال ملتان کی ینگ نرسز کی صدور کے کمنٹس میں یہ گلہ تھا کہ آپ نے کورونا کے خلاف لڑنے والی خواتین کو اپنی تحریر میں نظرانداز کر کے زیادتی کی ہے۔ اس شکایت کے مداوے کے لئے میوہسپتال میں ایک خاتون فارماسسٹ جو حال ہی میں کورونا آئسولیشن میں اپنی ٹرن مکمل کر کے آئی تھیں ان تک پہنچا۔ ان سے چند سوالات کئے پہلا سوال یہ تھا کہ کورونا وارڈ میں ڈیوٹی کرنے کے بعد آپ کا خوف تو ختم ہو گیا ہو گا ؟ان کی آنکھیں تیرنے لگیں اور کہا موت کا دن مقرر ہے ،خوف کس بات کا۔ لہجے میں کرب ایسا تھا کہ جیسے دریا میں غوطے کھاتے کسی شخص کو پکڑ کر کشتی میں بٹھا دیا ہو۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا وارڈ میں ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد آپ نے کورونا ٹیسٹ کروایا تو جواب دیا کسی اور کا ہوا جو میرا ہوتا؟ اگر ٹیسٹ کرنا شروع کر دیں تو ہسپتال کے آدھے سے زیادہ سٹاف کا ٹیسٹ پازیٹو آ جائے اور مریضوں کو دیکھنے والا کوئی نہ ہو۔ تیسرا سوال یہ تھا کہ کل آپ کی کورونا وارڈ میں ڈیوٹی ختم ہوئی آج پھر ڈیوٹی پر ہیں، آپ کو دو ہفتے قرنطینہ کے لئے آف نہیں دیئے گئے ؟ یہ سہولت ڈاکٹرز اور نرسز کو نہیں مل رہی ہم تو پھر ٹرن پر ڈیوٹی دیتے ہیں۔کورونا وارڈ میں ایک ڈیوٹی کرنے کے بعد دو ہفتے قرنطینہ کے لئے آف آپ کا حق نہ سہی میڈیکل مجبور ی ہے۔ بغیر ٹیسٹ کے اگلے ہی روز عام مریضوں کی وارڈ میں ڈیوٹی نہ صرف مریضوں بلکہ آپ کے اپنے بچوں اور گھر والوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ بچوں کا نام سنتے ہی ان کے ضبط کا بندھ ٹوٹا پھر کیا غالب نے کہا ہے نا کہ: رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے فارماسسٹ کے بعد ینگ نرسز کی ایک عہدیدار کا پتہ چلاتو نرسز کے مسائل پر ان سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ صرف میوہسپتال میں کورونا آئسو لیشن وارڈ میں ڈیوٹی کرنے والی 20نرسز میں کورونا کا ٹیسٹ پازیٹو آ چکا ہے اور اس کی وجہ ان کے نزدیک وارڈ میں انتظامیہ کی طرف سے فراہم کئے جانے والے ماسک تھے جن میں این 95کی طرح ریسپیریٹری فلٹر نہ تھا۔ ان کا گلہ یہ تھا کہ ڈاکٹرز کو این 95ماسک مہیا کئے جا رہے ہیں جبکہ نرسز عام سرجیکل ماسک کے ساتھ ڈیوٹی کرنے پر مجبور ہیں۔ وائی این کی عہدیدار نے بتایا کہ جو نرسز ہفتہ ڈیوٹی کر کے آئی ہیں وہ اپنی جیب سے کورونا ٹیسٹ کرواتی ہیں اگر کسی کا ٹیسٹ پازیٹو آ جائے تو اس کو گھر پر قرنطینہ کرنے کی بجائے اسی وارڈ میں داخل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ینگ نرسز کی عہدیدار ان میںسے ایک نے نرس طیبہ اظہار کی ایک شکایت کی کاپی تھما دی جس میں طیبہ نے ڈی ڈی او شالیمار کے خلاف اپنی شکایت میں لکھا ہے کہ وہ گزشتہ 20روز سے میوہسپتال میں داخل ہیں انہوں نے قانون کے مطابق گھر میں قرنطینہ کے لئے ڈی ڈی او کو درخواست دی تھی رابطہ کرنے پر ان کے پی اے نے بتایا کہ ڈی ڈی او گزشتہ تین روز سے دفتر میں ہی نہیں آ رہے۔ ینگ نرسز میوہسپتال کی عہدیدار نے بتایا کہ ایمرجنسی میں ڈیوٹی کرنے والی نرسز کی جانوں کو شدید خطرہ ہے ۔ ایمرجنسی میں کام کرنے والی تین سٹاف نرسز طوبیٰ ، بشریٰ اور طیبہ کے کوویڈ 19 ٹیسٹ پازیٹو آچکے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ جنرل ہسپتال میں 23سو نرسز کام کر رہی ہیں اسی طرح سروسز اور دوسرے ہسپتالوں میں بڑی تعداد میں نرسز موجود ہیں۔میو ہسپتال میں کل 1640نرسز ہیں مگر اس کے باوجود ایکسپو سنٹر ، کے ایل ٹی آئی اور ای یو ٹی میں میوہسپتال کی نرسز کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ ایسا صرف اس لیے کیونکہ کورونا پروگرام کو پنجاب میں سی ای او اسد اسلم لیڈ کر رہے ہیں انہوں نے اپنے مفاد کے لیے میو ہسپتال کی نرسز کو قربانی کا بکرا بنا رکھا ہے۔ان کے مطابق لاہور کے تما م ہسپتالوں کی انتظامیہ کورونا ڈیوٹی کرنے والی نرسز کے ٹیسٹ کراتی ہے یہاں تک کے دوسرے ملازمین کے بھی مفت ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں یہ ظلم صرف میو ہسپتال کے میڈیکل سٹاف سے روا رکھا جا رہا ہے کہ کورونا ڈیوٹی مکمل کرنے والے سٹاف کے بھی ٹیسٹ نہیں ہو رہے۔ میڈیکل سٹاف کی سب سے بڑی شکایت حکومت کے بار بار اعلان کے باوجود اضافی تنخواہ کا نہ ملنا ہے۔یہ تھے ایشیا کے سب سے بڑے ہسپتال کے حالات اور ڈاکٹرز اور میڈیکل سٹاف کی بپتا۔ میرے ایک عزیز اٹلی میں ہیں کورونا کی وبا کی اٹلی میں تباہی بڑھی تو ان کے متعلق تشویش میں اضافہ ہوا۔ ہفتہ میں ایک بار کم از کم ان کی خیریت دریافت کرتا تھا ہر بار تسلی دیتے تھے ایک روز ایک ویڈیو کلپ واٹس اپ کیا جس میں موصوف اپنے فلیٹ سے اترے سڑک کے کنارے ایک باکس سے حفاظتی کٹ نکالی پہنی اور چند قدم پر سٹور پر پہنچے۔ وہاں کٹ اتار کر ڈسٹ بن میں ڈالی، تھرموگن سے ٹمپریچر چیک ہوا ، سٹور سے سامان خریدا اور دوسری کٹ پہنی اور گھر کے دروازے پر کٹ ماسک اتار کر ڈسٹ بن میں ڈال دیئے اور گھر میں داخل ہو گئے۔ اٹلی میں غیر ملکیوں کو بھی ایسی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ خلاف ورزی پر 200یورو جرمانہ ہوتا۔ عام شہری کو حفاظتی انتظامات اختیار کرنے کا اس حد تک پابند کیا گیا تھا تو میڈیکل سٹاف کی حفاظت کا کیا معیار ہو گا؟ دوسری طرف وطن عزیز اور ہماری حکومت ہے اگر چین کی طرح ووہان میں ایک کروڑ 10لاکھ افراد کورونا ٹیسٹ کرنے کی تقلید کرتے ہوئے پاکستان بھی تمام شہریوں کے ٹیسٹ کرے، تو جس طرح ہم معاملات چلا رہے ہیں دو کروڑ پاکستانیوں میں کورونا ٹیسٹ پازیٹو آئے گااور یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں پچھلے دو ماہ کے رپورٹس کی روشنی میں یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے۔سرکار ی اعداد وشمار کے مطابق جب سے حکومت نے کورونا کے ٹیسٹ کرنا شروع کیے ہیں اس دن سے ہر دس میں سے ایک ٹیسٹ پازیٹو آ رہا ہے ۔حکومتی اعداد شمار کے مطابق گزشتہ روز تک پاکستان میں ایک ہزار کے لگ بھگ ڈاکٹرز اور میڈیکل سٹاف کے کورونا ٹیسٹ پازیٹو آئے ہیں ۔اموات کا تناسب باقی دنیا سے بلاشبہ کم ہے۔ اگر حکومت پہلے مرحلے میں صرف عالمی ایس او پیز کے مطابق میڈیکل سٹاف کے کورونا ٹیسٹ کروا لے تو خوف ناک نتائج سامنے آئیں گے۔ مجھے میرے ناقد کی بات کھائے جا رہی ہے۔ ڈاکٹر طاہر خلیل کی تو عہدے کی مجبوری ہو گی وزیر صحت یاسمین راشد ایک ڈاکٹر کے ساتھ ایک ماں بھی ہیں۔ صوبائی دارالحکومت میں ہزاروں ڈاکٹر انکے شاگرد ہیں جو ان کے بچوں جیسے ہی تو ہیں۔ ڈاکٹر ہونے کے ناطے وہ کورونا کی حساسیت اور سنگینی سے بے خبر نہیں۔ وزیر ہونے کی وجہ سے ان پر افسر شاہی کا دبائو بھی نہ ہو گا۔ ان کی اپنے بچوں کے بارے میں خاموشی تکلیف دہ ہے۔ ایک ڈاکٹر کے وزیر صحت ہوتے ہوئے میڈیکل سٹاف کی زندگیوں سے یوں کھیلا جا رہا ہے پھر تو میر نے سچ ہی کہا ہے شکوہ کروں میں کب تک اس اپنے مہرباں کا القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا