ژوب ڈگری کالج کے مایہ نازپروفیسرجناب عمرخان کی اچانک رحلت کی خبر ہم سب کے دل ودماغ پر ہتھوڑے کی طرح برسی اورسبھی کوحددرجے رنجیدہ کردیا۔۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔پروفیسر عمر خان معمول کی طرح دو دن پہلے پیر کوبھی کالج آئے ہوئے تھے اور پہلے کی طرح ہشاش بشاش اور تر وتازہ تھے ۔کسے خبر تھی کہ ان کی موت فقط دو یوم کی مسافت پر کھڑی ان کاانتظار کررہی ہے؟کل مجھے پروفیسرسید اجمل شاہ بتارہے تھے کہ اُسی روزپروفیسرعمرخان نے باتوں باتوں میں اسے اور پروفیسر نجم الدین کو اپنے سینے میں ہلکے بوجھ کی شکایت کی ۔جس پرہم نے انہیں کچھ گھریلوٹوٹکے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر سے چیک اپ کروانے کا مشورہ بھی دیا‘‘۔اگلے روزمنگل کی صبح کالج پرنسپل پروفیسرسید طاہر شاہ کو فون کرکے انہوں نے ناسازی طبعیت کی بناء پرکالج آنے سے معذرت چاہی تھا جس پرنسپل نے انہیںفوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا کہاتھا۔بدھ کو شاید ان کی طبیعت سنبھل گئی تھی، یوں صبح دس بجے کالج آنے کی تیاری کرنے لگے تھے۔جونہی وہ اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے تو انہیں اچانک دل کا دورہ پڑااور انہوں نے اسٹیرنگ کے اوپر ٹیک لگاکرخود کوسہارادیا۔ قریبی محلے داروں کے مطابق ’’ انہوں نے جناب عمرخان کو گاڑی میں بیٹھتے وقت دیکھاتاہم جب انہوں نے روانگی میں کافی تاخیر کردی تو وہ گاڑی کی طرف بڑھے ، اور دیکھاتووہ اسٹیرنگ پراوندھے منہ پڑھے اللہ کو پیارے ہوچکے تھے ‘‘۔اسی وقت ان کوقریبی سی ایم ایچ بھی پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کردی۔ درویش صفت عمرخان کی ناگہانی موت سے نہ صرف علمی خلا پیدا ہوا بلکہ سچی بات یہ ہے کہ زمیں ایک اور خدا ترس اورنیک انسان سے محروم ہوگئی۔پروفیسر درویش درانی نے بجافرمایاہے ؛ زیات شوے پہ لمن کی وو یو ستوری د آسمان چی کومہ ورز پر مزکہ باندی کم وو یو سڑیَ ، ( اُسی روز دامنِ فلک میں ایک اور تارے کا اضافہ ہواتھا جس دن روئے زمیں سے ایک(محبوب) انسان کوچ کرگیاتھا) ً ہمارے مخلص کولیگ پروفیسر عمرخان بھی ایک درخشان ستارے سے کچھ کم نہیں تھے اور میں سمجھتاہوں کہ ان کے اُٹھ جانے سے فلک کے روشن ستاروں میں ضرور اضافہ ہواہوگا۔آپ ہمارے کالج ژوب کے مایہ نازاور بزرگ اساتذہ میں سے ایک تھے۔حال ہی میں جب کالج کے پرنسپل جناب سید مبین شاہ ریٹائرہوئے تو میں اور کئی دیگر اساتذہ نے اس درویش صفت استاد کو ان کی اہلیت اور دیانت کی بناء پریہ عہدے سنبھالنے کا مشورہ دیالیکن وہ اس بوجھ کو اٹھانے کیلئے تیار نہیں تھے ۔حالانکہ ایسے عہدے کیلئے تقریباً ہر کالج اوریونیورسٹی کے اساتذہ بے تاب رہتے ہیں یہاں تک اس لالچ میںہم نے بہتوں کوبہت آخری حدتک جاتے دیکھا ،تاہم پروفیسرعمرخان نے موسٹ سینئر استاد ہونے کے باوجود اس کرسی پر بیٹھنے سے معذرت کی۔ میری اُن سے دلی لگاو کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ حد درجے مستغنی مزاج کے مالک تھے اور اپنے فریضے کو انتہائی ایمانداری سے نبھارہے تھے ۔جناب عمرخان نے اپنی اٹھائیس سال کی ملازمت کے دوران اپنے فرض کو اتنے خلوص اور دیانت سے نبھایا کہ ہرکسی کو ان کے اوپر رشک آتاتھا۔کئی دفعہ یہ بات سننے کو ملی کہ جس دن طلباء کلاس اٹینڈ کرنے نہیں آتے تو پروفیسرعمر خان اس روزبھی کلاس روم میںاس وقت تک بیٹھتے جب تک ان کے پیریڈ کا مقررہ وقت ختم نہ ہوتا۔قدرت نے جس طرح ان کو خلوص نیت اور اوصاف حمیدہ سے نوازا تھا اسی طرح انہیں ظاہری حُسن بھی عطا کیا تھا۔اسی طرح میں نے بے شمار معمولی درجے کے اساتذہ اورسرکاری عہدیداروں کو دیکھا ہے جن کی طبع نازک پر سلام میں پہل کرنا بہت گراں گزرتاہے تاہم جناب عمر خان کو قدرت نے غضب کی کسرِ نفسی سے نوازاتھا۔ دن میں دو دو بار وہ اپنے ہرچھوٹے بڑے ساتھی سے مصافحہ کرتے یہاں تک کہ تیسری مرتبہ بھی۔ اگر آپ کی طرف متوجہ ہوتو دور سے اپنے دائیں ہاتھ سے سلام اور ’’ستڑے مہ شیــ‘‘ کرتے۔ مجھے لگ بھگ آٹھ برس تک مرحوم عمر خان کا کولیگ رہنے کا شرف حاصل ہوا اور اس طویل عرصے میں مَیں نے ان کے ہاتھ وزبان سے کسی کو آزار پہنچتے نہیں دیکھا ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی بندوں کیلئے دار آخرت میں بہترین مقام عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے جو تکبر سے مبرا اور فساد کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ تلک دارالآخرۃ نجعلھا للذین لا یریدون علو فی الارض ولا فساداً٭یعنی دار آخرت کو ہم نے ان لوگوں کیلئے مختص کیا ہوا ہے جو تکبر اور زمیں میں فساد کرنے کا ارادہ تک نہیں رکھتے ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اس مشفق استاد اور درد ِ دل کی دولت سے مالامال دوست کو جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے اوران کے محروم اہل خانہ اور جملہ احباب کو صبرجمیل عطا کرے۔