سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کے مطابق ہمارے تارکین وطن کی تعداد 90 لاکھ کے قریب ہے۔ اگر ان تارکین وطن کو پاکستان کی آبادی کا حصہ بنایا جائے،تو ملک کی کل آبادی کا 4 فیصد بنتا ہے۔اور ہینلے پاسپورٹ انڈیکس کے حساب سے پاکستانی پاسپورٹ کی عالمی رینکنگ 112 ممالک میں 109 نمبر پر ہے۔ہم سے نیچے شام،عراق اور افغانستان ہیں، جبکہ جنگ سے متاثر صومالیہ اور یمن کے پاسپورٹوں کی رینکنگ ہم سے بہتر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی مقامی 96 فیصد آبادی کے لیے بیرون ملک قانونی طور پر روزگار کے مواقعوں میں کمی جاری رہے گی۔اس صورتحال میں پاکستانی سرکار پر مقامی طور پر روزگار کی فراہمی کا دبائو مزید بڑھے گا۔ آپ شاید سوچ رہے ہوںگے کہ اس کالم میں ہماری وزارتِ خارجہ ہدفِ تنقید ہو گی، جو بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے زائد ملازمتوں کے دروازے کھولنے میں ناکام رہی ہے۔ اس معاملے میں صرف وزارتِ خارجہ کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔آخر وزارت کے افسران کے بیرونِ ملک پاکستان کے لیے لابنگ کرنے کی گنجائش ملک کی خارجی اور داخلی پالیسیوں کے پیرائے میں بنتی ہے۔جہاں وزارتِ خارجہ کی عمومی کارکردگی میں بہتری کے مواقع موجود رہتے ہیں،وہاں ہم اس حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے کہ پاکستان کے اہل اقتدار کی اسٹرٹیجک پالیسیوں نے بھی ان کا کام مشکل تر کر دیا ہے۔آج کے کام کا مطمح نظر ان حالات کی نشاندہی کرنا ہے،جہاں پاکستان کے پاسپورٹ کی وقعت کم ہونے سے زیادہ اہم ملک میں موجود کروڑوں ناخواندہ،کم پڑھے لکھے اور کم ہنر مند غریبوں کے روزگار کا ملک کی اسٹرٹیجک پالیسیوں کی وجہ سے متاثر ہونا ہے۔ اور خاص طور پر جب ہمارے نچلے طبقے کے لوگوں کے لیے بیرون ملک مزدوری کرنے میں بھی قدخنیں بڑھتی جارہی ہیں۔ اگر ہم اسی کے عشرے کا جائزہ لیں،جب ہم ملک میں سویت یونین کی افغانستان میں دراندازی کے خلاف عالمی جہاد کا انفراسٹرکچر کھڑا کر رہے تھے۔ عین اس زمانے میں چین اپنے ملک کو بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کھول رہا تھا اور نجی شعبے کے لیے ماحول سازگار بنا رہا تھا۔اور نوے کے عشرے میں جب ہم کشمیر میں بھارتی بربریت کے خلاف جہادی تنظیموں کے نیٹ ورک کو پھیلا رہے تھے اور افغانستان میں طالبان کو اسٹریٹجک گہرائی کے نام پر حمایت مہیا کر رہے تھے، تو اسی عشرے میں بھارت اپنی معیشت کو کھولنے کے لیے بنیادی اصلاحات کر رہا تھا اور ایک عالمی سطح کی آئی ٹی صنعت قائم کرنے کی کاوشیں کر رہا تھا۔ جبکہ اکیسویں صدی کے اوائل میں پاکستان اچھے طالبان اور برے طالبان کو سنبھالنے اور نپٹانے میں مصروف تھا۔ اس زمانے میں بنگلہ دیش اپنی خواتین کو معیشت کا حصہ بنانے اور ٹیکسٹائل برآمدات میں ایک بڑی قوت بننے میں جتا ہوا تھا۔ آج 2022میں پاکستان کا غریب یہ سوال کرنے کا تو حق رکھتا ہے کہ ملکی تحفظ کے نام پر اپنائی ہوئی اسٹریٹجک پالیسیوں کا اس کے روزگار اور سماجی بہتری پر کیا اثر پڑا۔ بدقسمتی سے اس کاکوئی زیادہ مثبت جواب نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ قوم پرستی کے زعم میں اس کا جواب کچھ اس طرح دیا جائے کہ آزادی قائم رکھنے کے لیے قوموں کو کچھ سخت فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور اس دلیل میں کچھ صداقت بھی ہے۔ مگر ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ اس آزادی اور غلامی کی جدوجہد میں نچلے طبقے کی معاشی حالت میں تبدیلی کا تعلق اعلٰی طبقے کی اسٹریٹجک پالیسیوں کے انتخاب سے ہے۔ اب یہ حقیقت تسلیم کرنے میں مانع نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان کی اسٹریٹجک پالیسیوں کے نتائج اس کی سماجی اور معاشی ترقی کے لیے کوئی زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔اور اہل اقتدار کو ان پالیسیوں کی منفی اثرات کا کچھ عرصے سے احساس بھی ہے اور اس کی تبدیلی پر کام بھی ہو رہا ہے۔ مگر یہ سفر اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ انتہاپسندی کی جڑیں معاشرے میں بہت گہری ہیں اور ہر طبقے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ مذہب معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ نہیں ہوتا،بلکہ سرمایہ دارانہ نظام میں مذہب سماجی اقدار کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اور کسی بھی معاشرے میں سب سے مشکل چیلنج تبدیلی کی معاملہ سازی ہوتی ہے۔ بقول علامہ اقبالؔ سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں اب ہمارے لیے دقت یہ ہے کہ جدید دور کی سہولتوں اور ایجادات سے لطف اندوز تو ہونا چاہتے ہیں، مگر اس کے لوازمات اور تقاضوں کو پورا بھی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔گلوبلائزیشن کی دنیا میں ترقی کی راہیں باہمی تعاون، سرمایہ کاری کے بہائو اور ٹیکنالوجی کی منتقلی سے کھلی ہیں۔جن ملکوں کا پہلے ذکر ہوا تھا ، انہوں نے یہی راستہ اپنایا ہے۔ اور پاکستان کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ اپنے عالمی امیج اور مذہبی انتہاپسندی کے ساتھ بین الاقوامی سرمایہ کاروں اور کاروباری گروپوں کو ملک کی طرف راغب کرنا ہے۔ اب یہ بات نہیں ہے کہ پاکستان میں کوئی سرمایہ کاری ہی نہیں ہو رہی ہے۔ مگر تقابلی طور پر پاکستان اپنے جیسے دوسرے ملکوں کی طرح صنعتی اور خدمات کے شعبوں میں اپنی آبادی کے تناسب سے سرمایہ کاری اور نوکریوں کو فروغ نہیں دے پا رہا ہے۔ یہاں بڑا مسئلہ غریب کے روزگار کا پیدا ہورہا ہے، جس کی غالب اکثریت نے پاکستان میں رہنا ہے اور یہی سے اپنی روزی روٹی کمانی ہے۔ اب المیہ یہ ہے کہ ملک کی اسٹریٹجک پالیسیوں کی قیمتیں تو سارے طبقے ادا کر رہے ہیں، مگر غریب کا بوجھ اس کی استطاعت کے حساب سے سب سے زیادہ ہے۔ان پالیسیوں کے اثرات معیشت پر کب تک کم ہونگے، یہ ایک علیحدہ بحث طلب مسئلہ ہے۔ سرکار کے سماجی بہبود کے اقدامات جیسے کہ کیش ٹرانسفر پروگرام کی افادیت اپنی جگہ، مگر حکومت کو غریب کے روزگار کے لیے متوازی معیشت میں سہولتیں دینا ہوں گی ۔ متوازی معیشت میں غریب کے روزگار کے انتظام پر بات اگلے کالم میں ہوگی۔