معلوم نہیں کسی کا یہ خواب تھا یا ہے کہ ملک میں صدارتی نظام ہونا چاہئیے۔ جو اس ملک میں صدارتی نظام کا سوچتا ہے یا لانا چاہتا ہے اسکے پاس اسکے حق میں بہت سے دلائل بھی ہونگے۔ اس نظام کے بارے میں جتنا سوچیں ایک بات بہت دل کو لگتی ہے کہ لوٹوں اور الیکٹیبلز کی بلیک میلنگ سے ہر منتخب حکومت کی جان مستقل چھوٹ جائے گی۔گویا کسی بھی منتخب حکومت کو کمزور کرنے کا ایک ہتھیار کم ہو جائے گا۔ ویسے یہ سب سے موئثر ہتھیار رہا ہے۔اسکی مثالوں سے ہماری سیاسی تاریخ بھری پڑی ہے۔آجکل ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) ان الیکٹیبلز کی وجہ سے دبائو کا شکار ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میاںنواز شریف کو اس کام کے سرخیل کہنا غلط نہ ہو گا کہ انہوں نے پنجاب کا چیف منسٹر ہوتے ہوئے اپنے ہی قائد وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو ناکوں چنے چبوا ئے اور انکے حکومت سے ہٹتے ہی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے جو آجکل انکو ایک آنکھ نہیں بھاتی، مسلم لیگ (ن) بنا کر انکی جماعت بھی لے اڑے۔ لیکن خود بھی ایسے کرداروں کے ہاتھوں سیاسی میدان میں مشکلات کا شکار رہے جو گاہے بگاہے حالات اور اپنی سیاسی بقا کی خاطر کبھی کسی در پر سجدہ ریزہوتے رہے اور کبھی کسی آمر کی سیاسی تقویت کا باعث بنے۔ میاں نواز شریف نے گزشتہ دس روز میں ملکی اداروں کے خلاف جو ہاہا کار مچائی اسکے نتیجے میں انہیں انہی الیکٹیبلز کے ہاتھوں مزاحمت کا سامنا ہے۔ اپنی ہی جماعت کے پانچ ارکان کو انہوں نے جماعت سے نکال دیا ہے یا نکالنے کا نوٹس کر دیا ہے۔جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو مسلم لیگ (ن) کی صورتحال بنی تھی ویسی صورت بنتی نظر آرہی ہے۔ اس صورتحال میں میاں نواز شریف کی جگہ جو بھی ہو گا ،ایک خیال تو ضرور ذہن میں جانگزیں رہتا ہو گا کہ یہ کون لوگ ہیں کہ ذرا اقتدار سے ادھر ادھر ہوں تو یہ اپنا بستر بوریا کسی نہ کسی بہانے باندھ کر رفو چکر ہو جاتے ہیں۔اس سے بھی اہم یہ ہے کہ جب آپ اقتدار کے قریب ہونے لگتے ہیں، تو یہ بھی لوٹ آتے ہیں اور آپ انتہائی اصول پسند ہوتے ہوئے بھی مجبوری کے تحت انکو قبول کرتے ہیں کہ یہ جیتیں گے تو آپکو اقتدار ملے گا۔وزیر اعظم عمران خان بھلے احتساب پر کوئی سمجھوتہ کریں نہ کریں لیکن انہوں نے الیکٹیبلز پر بہت بڑا سیاسی سمجھوتہ کیا ہے۔اسی طرح سے پیپلز پارٹی جنرل ضیاء کی آمریت ختم ہونے کے بعد سے اسی طرح کے سمجھوتے کرتی چلی آ رہی ہے بلکہ یہ ہماری سیاست کا ایک ’’جمہوری اقتدار‘‘ حاصل کرنے کا اصول بن چکا ہے کہ انتخابات جیتنے کے لئے الیکٹیبلز ہونے بہت ضروری ہیں۔ انکے ذریعے اقتدار تو حاصل ہو جاتا ہے لیکن پھر مسائل شروع ہوتے ہیں۔ہر منتخب حکومت نے ان الیکٹیبلز کو طاقت بخشنے میں بہت اہم کردار ادا کیاہے۔ انکے حلقوں میں ترقیاتی پروگرام میں ترجیع، نوکریوں کے کوٹے، انکی مرضی کے تھانے اور کچہری کے افسران جنکے ذریعے وہ اپنی مقامی سطح پر گرفت مضبوط کرتے چلے گئے اور ووٹروں کے ذہنوں میں اس تاثر کو پختہ کر دیا کہ ہمارے بغیر آپکے مسائل حل کرنے والا کوئی نہیں۔ ان سے جان چھڑانے کے لئے صدراتی نظام شاید وا حد حل ہے۔ اس بارے میں مسلم لیگ(ن) اورخصوصاً پیپلز پارٹی بظاہر کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ پیپلز پارٹی تو1973 کے آئین کے خالق ہونے کے دعوے کی وجہ سے ہر وقت نعرے لگاتی رہتی ہے کہ کوئی تبدیلی نہیں ہونے دینگے، حا لانکہ ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے یہ آئین بنایا اور پاس کرایا وہ خود اور اسکے بعد انکی جماعت وقتاً فوقتاً اسمیں بیشمار تبدیلیاں کر چکے ہیں۔ اس میں وہ ترمیم بھی شامل ہے جو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خوف سے کی گئی جس میں اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے اختیار کو پارلیمنٹ کو دینے کی کوشش کی گئی تھی اور پیپلز پارٹی کواس ترمیم کو ختم کرنا پڑا۔ آجکل پھر پیپلز پارٹی اس ترمیم کے حوالے سے واویلا کر رہی ہے۔ ہمارے جمہوری نظام میںاسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور انتخابات میں مرضی کے نتائج حاصل کرنے پر بہت لعن طعن کی جاتی ہے لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ بارہ سال میں ہونیوالے تین انتخابات میں کچھ کیا بھی ہوگا تو ان الیکٹیبلز کیplacement کرنے کا کام کیا ہو گا۔ ان تینوں انتخابات کا عمومی جائزہ ہی کافی ہے کہ یہ الیکٹیبلز جب2008 پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ (ق) کو چھوڑ کر آئے تو اسے اقتدار ملا، پھر 2013 انکی اکثریت مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہی تھی اسی طرح سے تحریک انصاف کو انکی حمایت سے نصرت ملی۔ اسی لئے ہر اپوزیشن ان بارہ سالوں میں حکومت کو طعنے دیتی ہے کہ آپ نے ڈکٹیٹر کے ساتھیوں کو اپنی جماعت میں شامل کر لیا۔شاید اسی لئے یہ نعرہ وجود میں آیا تھا کہ ’’ چہرے نہیں نظام بدلو‘‘۔ صدارتی نظام دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہے اور بہترین جمہوری نظام کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جس طرح کا جمہوری نظام پنجے گاڑ چکا ہے اس میں طاقتور طبقہ کی حکمرانی کبھی ختم نہیں ہو سکتی کیونکہ کوئی سیاسی جماعت عوامی حمایت کے حوالے سے مضبوط نہیں ہے بلکہ سرے سے عوام میں انکی کوئی جڑ ہی نہیں۔ اگر کچھ اثرہے بھی تو انہی انتخاب لڑنے والے طاقتور طبقے کے ذریعے۔اسی لئے انتخابات میں ووٹنگ کی شرح انتہائی کم رہتی ہے۔انتخابی اخراجات بے تحاشا کرنے پڑتے ہیں اور جو منتخب نمائندے ہوتے ہیں وہ عوامی مسائل کے حل سے زیادہ اپنے انتخابی اخراجات کو پورا کرنے کے چکر میں رہتے ہیں جس کیلئے انہیں حکومت میں ایسا گٹھ جوڑ بنانا پڑتا ہے وہ جلد از جلد ریکوری کر سکیں۔ا س سارے عمل میں عوام اور عوامی مسائل دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ صحت، تعلیم، امن و امان، عوامی خدمت کے اداروں کا اصل کام کمپرو مائز ہو جاتا ہے۔اگرچہ اکثر سیاسی جماعتیں صدارتی نظام کی بھرپور مخالفت کر رہی ہیں لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ ہم بہت تیزی سے اس نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔صدارتی نظام کے حوالے سے ایک قومی بحث اس وقت شروع کرنا بر وقت اقدام ہوگا تا کہ اسکے تمام پہلوئوں کے بارے میں تمام سٹیک ہولڈرز اپنا نقطہ نظر پیش کر سکیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے نئے سماجی معاہدے کی بات کی تھی جسکی واقعی ضرورت ہے اسی بنیاد پر ایک قومی ڈیبیٹ شروع کی جا سکتی ہے جسکا ایک موضوع صدارتی نظام بھی ہو سکتا ہے۔