سیدہ صفیہ جلیل القدر خاتون اورپاکیزہ اوصاف کی حامل اہل بیت میں سے ایک تھیں ۔ پورا نام صفیہ ہارونیہ تھا اور آپ اپنے قبیلے کے سردار حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں۔ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا اللہ کے نبی یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام کی پشت اور پھر اللہ کے رسول سیدنا ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے تھی جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بھائی تھے ۔ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا بڑی فہم وفراست کی حامل خاتون تھیں وہ زہدوتقویٰ اور خلاص کی پیکر تھیں اور وہ ان خواتین میں سے تھیں جو لوگوں کے ساتھ حسن سلوک‘ ہمدردی اور درگزر کرنے میں مشہور ومعروف تھیں۔ خوش اخلاقی اور ان کا خوشنما زیور تھا۔ حالات وواقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کبھی کبھار سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہااور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا اپنی خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرابت اور اپنے عربی النسل ہونے کا فخریہ اظہار کیا کرتی تھیں تاکہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہاکو احساس دلایا جاسکے ۔خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے مواقع پرسیدہ صفیہ رضی اللہ عنہاکا ایسے انداز میں خاندانی پس منظر بیان کرتے کہ وہ سن کر خوش ہو جاتیں اور انہیں یہ محسوس ہونے لگتا کہ خانہ نبوی میں واقعی ان کی قدرومنزلت ہے ۔ ابودائود، ترمذی اور بیہقی میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے ۔ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک دن خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باتیں کرتے ہوئے کہہ دیا کہ بس آپ کے لئے تو صفیہ ہی کافی ہے جو چھوٹے سے قد کی ہے ۔خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات سن کر فرمایا: ’’عائشہ تم نے ایک ایسی کڑوی بات کی ہے کہ اگر اسے سمندر میں ملا دیا جائے تو وہ بھی کڑوا ہو جائے ۔‘‘ یہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج کے سفر پر اپنی تمام ازواج مطہرات کو ساتھ لے کر گئے ۔ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ تھک کر بیٹھ گیا تو وہ رونے لگیں۔ جب خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا تو خاتم النبیین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور ان کے آنسو اپنے ہاتھوں سے صاف کرنے لگے ۔ وہ رو رہی تھیں آپ انہیں رونے سے روک رہے تھے ۔خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ زینب بنت حجش رضی اللہ عنہاسے کہا کہ اپنی بہن کی مدد کیجئے ۔ انہوں نے جواب دیا’’ کیا میں اس یہودی عورت کی مدد کروں‘‘؟ خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر ناراض ہوگئے اور ان سے پورے سفر حج میں بات نہ کی‘ یہاں تک مدینہ منورہ واپس آگئے ‘ محرم اور صفر ایسے ہی گزر گیا۔ آپ ان کے ہاں نہیں آئے ‘ وہ مایوس ہوگئیں ربیع الاول میں آپ ان کے ہاں تشریف لائے ‘ انہوں نے معافی طلب کی تو آپ راضی ہوگئے ۔ اس طرز عمل کی وجہ سے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا احساس اجنبیت بالکل جاتا رہا اور انہوں نے یہ محسوس کیا کہ میری اس گھر میں واقعی ایک قدرومنزلت ہے اورخاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاص طور پر میرا خیال رکھتے ہیں۔ ام المومنین سید صفیہ رضی اللہ عنہاظاہر وباطن کے اعتبار سے بالکل پاک صاف تھیں۔ وہ خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صدق دل سے محبت کرتی تھیں۔ صداقت اور وفاداری ان کے رگ وریشے میں رچی بسی ہوئی تھی اور بعض دل آویز مواقف میں تو ان کی حیثیت بالکل منفرد دکھائی دیتی تھی اس لئے خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قسم کھا کر ان کی صداقت کی گواہی دیتے تھے ۔ زید بن اسلم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جس بیماری میں خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تمام ازواج مطہرات آپ کے پاس اکٹھی ہوئیں۔ سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرا دل چاہتا ہے کہ جو بیماری آپ کو لاحق ہوئی ہے وہ مجھے لگ جائے ۔ یہ بات سن کر ازواج مطہرات نے انہیں کچوکا دیا تو خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: تم سب کلی کرو، سب نے کہا: کس چیز سے یا رسول اللہ؟ خاتم النبیین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کس نے اسے عیب لگایا‘ اللہ کی قسم! یہ اپنی بات میں سچی ہے ۔ ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا تمام معاملات کو قرآن وسنت کی روشنی میں نپٹانے کے حوالے سے مشہور ومعروف تھیں۔ وہ تمام امور کو اسی روشن کھڑکی سے دیکھتی تھیں اور معاملہ فہمی میں وہ قرآن وحدیث سے باہر نہیں جاتی تھیں۔ ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہاقرآن کریم کے معانی‘ مفہوم اور اسرارورموز کو اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ جو لوگ قرآن کریم کے زیر سایہ زندگی بسر کرتے ہیں اور اس کے آفاق میں گم رہتے ہیں۔ قرآن کریم ان کے دلوں پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے اسی لئے وہ دن رات قرآن حکیم کی تلاوت میں مصروف رہتی تھیں۔ حقیقی مومن وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا نام لیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور جب قرآن حکیم کی آیات پڑھی جائیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ ان کا رابطہ اپنے اللہ کے ساتھ بڑا مضبوط ہوتا ہے اور جو لوگ اس دستور کی مخالفت کرتے ہیں وہ سیدھے راستے کی رہنمائی کے محتاج ہوتے ہیں۔ ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا اس قسم کے لوگوں کی رہنمائی کو پسند کرتی تھیں تاکہ صحیح بنیادوں پر عبادت کا فریضہ سرانجام دے سکیں۔ خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہاتقریباً چالیس سال زندہ رہیں۔ وہ زندگی بھر نماز‘ روزے ‘ عبادت‘ صدقہ وخیرات اور علم وعرفان میں مصروف رہیں۔ ہر کام اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کا قرب حاصل کرنے کیلئے سرانجام دیتی۔ ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہانے 5 ہجری کو اس دنیا کو خیر باد کہا تاکہ رفیق اعلیٰ اللہ رب العزت کے پاس پہنچ جائیں۔ یہ اس وقت راضی خوشی تھیں انہوں نے پاکیز ہ خواتین اہل بیت میں اپنا اچھا اثر چھوڑا اور یہ اثر اللہ کے فضل وکرم سے رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔ مدینہ منورہ میں امہات المومنین رضی اللہ عنہن اور دختران خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں انہیں دفن کیا گیا۔ صحابہ کرام ان کے جنازے میں شریک ہوئے اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی۔