الہام کے معنی : ’’ابلاغ،پہنچانا یا دل میں کوئی بات القا ء کر دینا، عرف میں اس سے مرادیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی شخص کے دل میں بات ڈالنا ۔‘‘(امام راغب اصفہانی۔مفردات القرآن) قرآن مجید میں الہام کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’قسم ہے نفس کی اور اسے درست کرنے کی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نفس کو برائی سے بچنے اور پرہیزگاری اختیار کرنے کی سمجھ(الہام) عطا فرمائی‘‘(سورہ والشمس:10) وسوسہ کے معنی: کسی معصیت کے خیال یا عمل کو دل میں ڈالنا۔ شیطان انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی القاء کرتا ہے اور اس گناہ کے کام کو خوش نما بنا کرانسان کو اس برائی کی طرف راغب کرتا ہے ۔امام ابو منصور وسوسہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ شیطان انسان کے دل میں ایسی باتیں ڈالتا ہے جن سے وہ اپنے دین میں حیران ہوجاتا ہے اور اس کے دل میں بری خواہشات کا وسوسہ ڈالتا ہے اور برے کام کرنے کی طرف راغب کرتا ہے ۔سیدنا علی بن حسین (امام زین العابدین)رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا: بے شک شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح رواں دواں ہوتا ہے (صحیح البخاری) گویا وہ رگ وپے میں سرائیت کرکے انسان کو گمراہ کرنے کی ناپاک سعی کرتاہے ۔سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ شیطان ابن آدم کے قلب پر بیٹھا رہتا ہے ، جب اس کو سہو ہو یا غفلت ہو تو وہ وسوسہ ڈالتا ہے اور جب وہ اللہ کا ذکر کرے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتاہے تو اس سے کہتا ہے کہ فلاں چیز کس نے پیدا کی فلاں کس نے ؟یہاں تک کہ کہتا ہے تمہارے رب کوکس نے پیدا کیا، جب اس حد کو پہنچے تو اعوذ بااللہ پڑھ لو اور اس سے باز رہو (متفق علیہ) الہام و وسوسہ کی وضاحت: بُرے خیالات اور مفسد فکر کو وسوسہ اور اچھے اور عمدہ خیالات کو اِلہام کہتے ہیں۔وسوسہ شیطان کی طرف سے اور اِلہام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے ۔الہام اور وسوسہ یہ دو راستے اللہ تعالیٰ نے انسان کے سامنے ظاہر کر کے اِس کو خیر اور شر میں اختیار دے دیا کہ جس کو چاہے وہ پسند کرے اور اختیار کرے اور جس کو چاہے ترک کردے ۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ہم نے اِس (انسان) کو دونوں راستے (خیر وشر)دکھا دیے (سورہ البلد:01)۔صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں ایسا کوئی نہیں جس پر ایک جن (شیطان) اور ایک فرشتہ مقرر نہ ہو۔عرض کیا گیا ،یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے ساتھ بھی؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں میرے ساتھ بھی، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے خلاف میری مدد فرمائی اور اسے مسلمان کردیا پس اب وہ خیر میں میری مدد کرتا ہے ۔پس انسان خیر کی بات سنے اوربھلائی اختیار کرے تو وہ کامیاب ہے اور اگر شیطان کی سنے اور گناہ میں مبتلا ہوجائے تو وہ ناکام ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :جس نے اپنے نفس کو گناہوں سے پاک کر دیا وہ کامیاب ہوگیا اور جس نے اپنے نفس کو گناہوں سے آلودہ کر دیا وہ ناکام ہوگیا۔(سورہ الشمس:9،10) سیدنا عبداللہ ا بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ مومن متقی کے دل میں اس کا تقویٰ ڈال دیتا ہے اور فاجر کے دل میں اس کا فجور ڈال دیتا ہے ۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ تقویٰ کا راستہ اختیار کریں اور فسق و فجور سے بچیں۔ وسوسہ اور الہام کا حکم:انسان کے دل میں اچانک جن کاموں کی صورتیں آتی ہیں اگر وہ رزائل اور گناہ کی طرف راغب کریں تو وہ وسوسہ ہے اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت، عبادت اور فرماں برداری کی طرف راغب کریں تو وہ الہام ہے ۔الہام غیبی رہنمائی ہوتی ہے مگر یہ وحی کے علم کی طرح حتمی،قطعی اور قابل اعتماد نہیں ہوتی۔الہام کے قابل قبول ہونے کی یہی بنیادی شرط ہے کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وسوسہ کے بارے میں ارشاد فرمایا میری امت کے سینوں میں جو وسوسے آتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے درگزر فرماتا ہے یہاں تک کہ وہ اس وسوسہ کے موافق یا مطابق عمل یا کلام نہ کرلیں (صحیح بخاری)انسان کے دل میں کسی ناجائز کام کے کرنے کا خیال آئے اور وہ اسے جھٹک دے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ۔ اور جب انسان برائی کے خیال کو اپنے دل میں جما لے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرے اور اس کام کا تصور کرے جیسے انسان کے دل میں کسی کا مال غصب کرنے کا خیال آئے یا کسی نامحرم سے ناجائز تعلقات بنانے کا خیال آئے اور وہ اس وسوسہ کو دل میں جما لے اور اس کام کو کرنے کا منصوبہ بنالے تو جب تک وہ برائی کر نہ لے وہ گناہگار نہ ہوگا۔البتہ علامہ نووی لکھتے ہیں کہ جب انسان اپنے دل میں گناہ کا عزم کرے اور اس کو کرنے کا ارادہ کرے تو اپنے اعتقاد اور عزم میں گناہگار ہوگا۔یعنی یہ خیالات اس کی خصلت و جبلت کو بگاڑ دیں گے ۔ الہام پر عمل اور وسوسہ سے بچنے کے لیے دعا کی تلقین:سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ آیت (فَاَلھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقوَاھَا)پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا مانگی:اے میرے اللہ! میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا فرما اور اس کو پاک کردے تو سب سے عمدہ پاک کرنے والا ہے ، بے شک تو اس کا ولی اور اس کا مولا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شیطانی وسوسہ کا ذکر کرتے ہوئے اس سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی ہے ۔ارشاد فرمایا:(اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کہیے : میں سب لوگوں کے رب کی پناہ لیتا ہوں۔۔۔) پیچھے ہٹ کر چھپ جانے والے کے وسوسے ڈالنے کے شر سے ۔ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے ۔ (الناس:1،4،5) سورہ الاعراف میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جب شیطان تم کو کوئی وسوسہ ڈالے تو تم اللہ کی پناہ طلب کرو بے شک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے (200) اس آیت کریمہ میں یہ تعلیم دی گئی ہے جب تمہارے دل میں گناہ کرنے کا شوق پیدا ہوا اور اس کی تحریک ہو تو فوراً شیطان کے ڈھالے ہوئے وسوسہ اور گناہ کی صورت کو دل سے نکالنے کے لیے اعوذباللہ من الشیطان الرجیم پڑھ لو۔ الہام اور وسوسہ کے حوالے میں ماحول بہت اثر انداز ہوتا ہے اگر ہم اپنے ماحول کو اچھا رکھیں گے ، اطاعت خداوندی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کا ماحول ہوگا تو ہم ملہم کی سنیں گے اور اگر ہمارے اردگرد برائی پھیلی ہوئی ہوگی اور برائی کو پسند کرنے والے زیادہ ہوں گے تو پھر ہم شیطان کی سنیں گے اور خیر و شر کے اختیار میں پھسلنے کا امکان زیادہ ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ماحول کو بہتر بنائیں،نسل کی تربیت کا خاص اہتمام کریں تاکہ ہم وسوسہ کی بجائے الہام پر عمل کریں۔