معروف تجزیہ کار کلیان بروا کا کہنا ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں نہایت کم افراد ہی غیر ملکیوں کی فہرست میں شامل کئے گئے ہیں۔ ان کے مطابق جب یہ ایکسرسائز شروع ہو گئی تھی، تو چونکہ لگتا تھا اس کا ٹارگٹ مسلمان ہی ہونگے، اسلئے مسلم تنظیموں خاص طور پر جمعیت علماء ہند ، اسکے مقامی لیڈر بد رالدین اجمل ، ان کے ساتھیوں اور کئی غیر سرکاری تنظیموں نے مسلمانوں کو دستاویزات تیار کروانے اور قانونی مدد فراہم کروانے میں کلیدی رول ادا کیا۔ اجمل ، جو آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف)کے سربراہ اور لوک سبھا کے ممبر بھی ہیں، نے پچھلے ایک سال سے دیہاتوں میں ہی ڈیرا ڈالا ہوا تھا، تاکہ علاقہ کے سبھی افراد کو مطلوبہ دستاویز تیار کروانے میں مدد کی جاسکے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڈھ مسلم یونیورسٹی اور کئی دیگر اداروں کے قانون کے طلبہ نے بھی رضاکارانہ طور پر ان کی مدد کی۔ دور دراز کے علاقوں میں پہنچ کر ان نوجوانوں نے شہریت ثابت کرنے کیلئے مطلوب دستاویزات تیار کروانے میں لوگو ں کی مدد کی۔ بروا کے مطابق چونکہ ہندو اس عمل سے زیادہ خائف نہیں تھے، انہوں نے اسکو سنجیدگی سے نہیں لیا، جس کی وجہ سے ان کی خاصی تعداد شہریت کی لسٹ سے باہر ہوگئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاست میں بی جے پی کی حالت اسوقت قابل رحم ہے۔ اب جبکہ ان کے ہی ووٹروں کی اچھی خاصی تعداد غیر ملکیوں کے زمرے میں آگئی ہے ، بی جے پی کے لیڈران نے اس این آر سی کے پورے عمل پر ہی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ آسام کے وزیر خزانہ اور شمال مشرق میں بی جے پی کے مقتدر لیڈر ہیمنتا بیسواسرما نے این آر سی کے عمل میں متعین افسران پر اپنا غصہ اتارا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان افسران نے 1971میں بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آئے ہندو ں کو دی گئی ریفوجی اسناد کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کے مطابق بھگوان کرشنا اور بھگوتی درگا کے ماننے والوں کو غیر بھارتیہ قرار دیا گیا ہے۔ بی جے پی کے لیڈران اب اس این آر سی کے عمل کو پورے ملک میں لاگو کروانا چاہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ آسام میں غیر قانونی طورپر مقیم بنگلہ دیشی اب ملک کے دیگر علاقوں میں بس گئے ہیں۔ اب اگر آسام کی طرز کا آپریشن پورے ملک میں لاگو کیا جاتا ہے تو اسپر ایک اندازہ کے مطابق 17ٹریلین روپے درکار ہونگے۔ ریفوجی ایشوز پر کام کرنے والے سہاس چکمہ کا کہنا ہے آسام میں آبادی کو یہ ثابت کرنا تھا کہ 24مارچ1971سے قبل وہ اسی صوبہ میں مقیم تھے۔ ان کے مطابق 1971میں آسام کی 66فیصد آبادی ناخواندہ تھی۔ ان کے پاس تعلیمی اسناد تو تھی ہی نہیں، تو آخر کہاں سے پیدائشی سند حاصل کرتے۔ اس عمل میں اکثر بے زمین مزدور شہریت ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ چکما کا کہنا ہے کہ چائے کے باغان میں کام کرنے والے قبائلیوں کو چھوڑ کر کوئی بھی کمیونٹی آسام کی اصل رہائشی ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے جنرل سیکرٹری امین الاسلام کا کہنا ہے کہ پچھلے 40برسوں سے مسلمانوں کے سروں پر شہریت کی جو تلوار لٹک رہی تھی، وہ ہٹ گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق شہریت کا پیمانہ مذہب نہیں ، بلکہ 1985کا آسام ایکارڈ تھا، جس کی رو سے مارچ1971تک آسام میں رہنے والوں کو شہری تسلیم کرنا تھا۔ سپریم کورٹ نے تین مرحلوںکی جس ایکسرسائز کا حکم دیا تھا، اس میں پہلا مرحلہ یعنی شناخت کا مرحلہ ختم ہو گیا ہے۔ دوسرا مرحلہ ووٹر اور شہریت کی لسٹ سے ایسے افراد کا اخراج کرنا ہے۔ تیسرے مرحلے میں ملک بدر کرنا۔ حکومت کو اب یہ غم ستا رہا ہے کہ ہندوں کی اتنی بڑی تعداد کو کہاں بھیجیں۔ اسلئے پارلیمان کے اگلے اجلاس میں مودی حکومت شہریت کے قانون میں ترمیم کرنے کا ایک بل دوبارہ پیش کر رہی ہے۔ یہ بل 2016کو لوک سبھا میں پیش ہوا تھا، اور بعد میں منظور بھی ہوا تھا۔ مگر راجیہ سبھا نے اسکو رد کردیا۔ اس کے مطابق بنگلہ دیش، پاکستان،ا ور افغانستان سے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، جین اور پارسی بھارتی شہریت کے حقدار ہونگے، اسکے لئے ان کو کوئی بھی ڈاکومینٹ پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یعنی اگر ملک بدر یا نظر بند ہونگے تو، صرف مسلمان ہی ہونگے ۔ مگر اس مجوزہ قانون پر پہلے ہی آسامی ہندو ں کی طرف سے مزاحمت ہو رہی ہے۔ تقسیم ہند اور 1971 میںسقوط مشرقی پاکستان کے وقفہ کے دوران تقریباً ایک کروڑ افراد ہجرت کرکے شمال مشرقی ریاستوں میں بس گئے تھے۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر زچ کرنے کیلئے سرحدیں کھول دی گئیں تھیں اور اس طرح کی ہجرت کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی تھی۔ جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو اکثر لوگ واپس چلے گئیْ ۔ 1978سے 1985 کے درمیان آل آسام سٹوڈنٹس (آسو) سمیت کچھ تنظیموں نے پرپگنڈہ شروع کیا کہ بہت سے پناہ گزین بنگلہ دیش جانے کے بجائے آسام میں بس گئے ہیں۔ 1978ء میں ہوئے اسمبلی کے انتخابات میں 17 مسلمان منتخب ہو گئے تھے۔ بس پھرکیا تھا، آسمان سر پر اٹھا لیا گیا کہ آسام کو ''اسلامی ریاست‘‘ میں تبدیل کرنے کے لئے بنگلہ دیشی مسلمانوں کا ایک ریلا چلا آرہا ہے۔پہلے تو غیر آسامیوں یعنی ہندی بولنے والوں کے خلاف تحریک شروع کی گئی، پھر اس کا رخ غیر ملکیوں اور خاص کر بنگلہ دیشیوں کے خلاف موڑ دیا گیا بعدازاں اسے آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرستوں کی شہ پر خونریز مسلم مخالف تحریک میں تبدیل کردیا گیا۔اس خوفناک اور خوں آشام تحریک نے ہزاروں بے گناہوں کی جانیں لیں اورکروڑوں روپئے مالیت کی جائیدادیں تباہ و برباد کی گئیں۔(جاری ہے)