اﷲ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر فضلیت علم کی بنا پر دی۔ وحیِ الٰہی کی ابتدا سیکھنے سکھانے کی ترغیب سے ہوئی۔سورہ البقرہ کی آیت نمبر 129 میں جو فرائضِ نبوت مقرر کئے تو وہ چاروں فرائض تعلیم و تعلم سے تعلق رکھتے تھے ۔سورۃ الزمر کی آیت نمبر 9 میں انسانوں کے دو طبقے بیان فرمائے اور علم والے کو جاہل پر فضیلت دی۔دنیا میں وہی شخصیات زندہ ہیں جنہوں نے علم کی خدمت کی۔ایسے ہی خوش نصیب لوگوں میں سے ایک نام امام محمد بن حسن الشیبانی کا ہے ۔دنیا میں بہت کم شخصیات ہوتی ہیں جن کو اﷲ تعالی گہری سمجھ، مضبوط قوتِ حافظہ،اعلیٰ سوچ، زرخیز قانون ساز فطانت وذکاوت جیسی خوبیاں عطا کرتا ہے۔ ان تمام خوبیوں کی عکاس شخصیت امام محمدکی تھی۔ان تمام خوبیوں کے ساتھ آپ کو فقہ،حدیث،لغت، قانون جیسے تمام علوم و فنون پر یدطولیٰ حاصل تھا۔ آپ کا مکمل نام ابو عبد اﷲ محمد بن حسن بن فرقد شیبانی ہے ۔ آپ کی ولادت 132ھ جبکہ بعض کے نزدیک 133ھ کو عراق کے شہر واسط میں ہوئی۔آپ کی وفات ’ری‘ کے مقام پر 189ھ کو ہوئی۔(الفہرست، ص253) مناقب الکردی میں ہے کہ امام محمد فرماتے ہیں کہ میرے والد مجھے امام ابو حنیفہ ؓ کی خدمت میں لے گئے اور اس وقت میری عمر ۴۱ برس تھی۔امام محمدامام ابو حنیفہ کی مجلس میں حصولِ علم کے لیے کئی سال تک شریک رہے اور اس کے بعد امام ابو یوسف سے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔آپ نے فقہ و حدیث میں لامحالہ طور پر پوری انسانیت کے لیے وہ خدمت کی جسے دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی۔امام محمد واسط میں پیدا ہوئے مگر آپ نے اپنی پرورش کوفہ شہر میں پائی اور وہیں سے آپ نے اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔آپ نے اپنی علمی ترقی کا آغاز قرآن کریم کا کچھ حصہ حفظ کرنے کے ساتھ کیا اس کے بعد چند احادیث نبویہ کو زبانی یاد کیا جس کے سبب آپ کو عربی زبان و ادب میں زیادہ شغف پیدا ہوا اور آپ نے امام ابو حنیفہ کی علمی مجالس میں شرکت کرنا شروع کردی۔بعض روایات کی روشنی میں آپ کا امام اعظم ابو حنیفہ کے ساتھ وابستگی کا سبب یہ بنا کہ آپ ایک دفعہ مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر امام ابو حنیفہ کی گفتگو سماعت کررہے تھے اور امام صاحب مختلف مسائل پر گفتگو فرما رہے تھے ، جب آپ کی امام محمد پر نظر پڑی تو فرمایا: اے لڑکے ! اگرہماری مجلس میں مستقل شریک ہوتے ہو تو یقینا کامیاب ہوجا ئو گے ۔گویا امام ابو حنیفہ کی دور اندیشی یہ مشاہدہ کر رہی تھی کہ ایک دن یہ لڑکا دین متین کی عظیم خدمت کرے گا اور چار دانگِ عالم اس کی علمی شہرت ہوگی۔امام ابو حنیفہ کے کہنے پر امام محمد نے اگلے ہی روز سے باقاعدہ طور پر امام ابو حنیفہ کی مجلس میں آنا شروع کر دیا۔ امام ابو حنیفہ نے آپ سے قرآنِ کریم کے متعلق امتحان لیا اور آپ کو قرآنِ کریم کا مکمل حافظ نہ ہونے کے سبب امام محمد پر پابندی لگا دی کہ جب تک وہ قرآن پاک کو مکمل حفظ نہیں کر لیں وہ علمی مجالس میں شریک نہیں ہوسکتے ۔چنانچہ امام محمد ایک ہفتہ امام ابو حنیفہ کی علمی مجلس سے غیر حاضر رہے ۔اس کے بعد اپنے والدِ گرامی کے ساتھ امام ابو حنیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے قرآنِ کریم کو حفظ کر لیا ہے ۔اس میں کوئی حیرانی والی بات نہیں تھی اس لیے کہ امام محمد بہت قوی الحافظہ اور ذکی الذاکرۃ تھے جس کی گواہی آپ کے اساتذہ نے بھی دی۔(زاہد کوثری، بلوغ الامانی،ص6) امام محمد اور فقہ حنفی کی تدوین امام ابو حنیفہ کا علمی مجالس میں منہج و اسلوب انتہائی مدبرانہ و محققانہ تھا۔آپ کی علمی مجالس میں شرکت سے قرآن فہمی، حدیث، فقہ اور دیگر علوم و فنون پر غور وفکر اور علمِ مناظرہ جیسا فن پروان چڑھتا تھا۔آپ کے علمی حلقہ میں مختلف اَقسام کی ابحاث پر گفتگو ہوتی اور آپ کے تلامذہ آپ سے سوال پوچھتے بلکہ امام اعظم ابو حنیفہ خود ان کی بحث و تحقیق میں شامل ہوتے اور ایک رائے پر اتفاق ہوجانے کے بعد انہیں مسئلہ تحریر کرنے کی اجازت دیتے تھے ۔اس علمی فضا نے امام محمد کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ کردیا تھا۔ امام محمد امام ابو حنیفہ کی شاگردی میں رہتے ہوئے نہ صرف مسائل کا سماع کرتے بلکہ ان کے ساتھ تحقیق و تنقیح میں شرکت کرتے اور نوٹس کی صورت میں اسے ترتیب بھی دیتے ۔ یہی وجہ ہے کہ امام محمد کی یہ سنجیدہ کوشش بعد میں تدوین فقہ کی بنیاد بنی اور آپ کی علمی خدمات یک جا ہو کر منصہ شہود پر آئیں جو کہ عدیم المثال ہیں۔علامہ عبد الحی لکھنوی اس بات کی گواہی یوں دیتے ہیں کہ امام محمد وہ ہستی ہیں جن کی تصانیف و تالیفات کے سبب امام ابو حنیفہ کی فقہ حنفی اَطراف عالم میں مشہور ہوئی۔(الفوائد البہیہ فی تراجم الحنفیہ، ص163)۔ امام محمدکی علمی کاوشوں کے سبب فقہ حنفی کی ترویج و تدوین ہوئی اس لیے کہ آپ نے امام ابو حنفیہ کے مذہب میں کثیر کتب تصنیف کیں۔امام محمد کی کثیر کتب میں سے چھ(6) کتب ’ ظاہر الروایۃ‘ کہلاتی ہیں۔ کتاب المبسوط، الجامع الصغیر، الجامع الکبیر، السیر الصغیر، السیر الکبیر، الزیادات۔ان کتب کو ظاہر الروایۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کی سند کی نسبت نہایت ثقہ اور مضبوط ہے اسی لیے یہ کتابیں امام محمد سے بطریق تواتر ثابت ہیں۔ مٔوطا امام محمد کی ثقاہت اور علمی قدر و منزلت امام محمد نے اوائل عہد مہدی میں مدینہ منورہ کا سفر کیا اور تین سال تک وہیں مقیم رہے ۔آپ’ مٔوطا ‘ کی سماعت کرنے کی غرض سے مسلسل تین سال امام مالک کی مجالس علم میں شرکت کرتے رہے ۔امام محمد کا روایت کردہ نسخہ تمام نسخوں میں عمدہ ترین شمار ہوتا ہے ۔امام محمد نے صرف امام مالک سے روایت کردہ احادیث کو بیان کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ روایاتِ مالک کے ساتھ دیگر روایات، بالخصوص علمائے حجاز وعراق سے سماعت کردہ روایات کا بھی اس میں اضافہ کردیا ہے ۔چونکہ امام محمد نے مٔوطا امام مالک میں، امام مالک کے علاوہ دیگر علماء کی روایات اور بالخصوص اپنے اجتہادات کثرت سے بیان کئے ہیں خواہ وہ آرائدیگر علماء کے موافق ہوں یا مخالف ہوں وہ اسے یوں بیان کرتے ہیں کہ: اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں اور اسی پر امت کا عمل ہے ، یہی صحیح،یہی ظاہر ہے ، اسی وجہ سے یہ مٔوطا امام محمد کے نام سے مشہور ہے ۔مٔوطا امام محمد کی قدر ومنزلت اور ثقاہت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مرفوع احادیث،آثارِ صحابہ(جو حکما مرفوع ہیں) اور فقہ حنفی کا مفصّل و مدلل ذخیرہ ہے ۔ امام محمد کی تعلیقات دقت نظر اور اختصار کی وجہ سے امتیازی شان رکھتی ہیں۔آپ نے تعصب اور تنگ نظری سے اپنا دامن محفوظ رکھا ہے ۔ ان تمام خوبیوں کی بناء پر ’مٔوطا امام محمد‘ ایک ایسا علمی کارنامہ ہے جو اس سے قبل کسی نے انجام نہیں دیا۔امام محمد کا روایت کردہ ’مٔوطا ‘ کا نسخہ اس لحاظ سے ممتاز ہے کہ اس میں اہل حجاز کی ان احادیث کو بیان کیا گیا ہے جنہیں اہل عراق نے اختیار کیا ہے ۔ ناقدین اور تذکرہ نگاروں کی وضاحت کے مطابق مٔو طا کے کئی نسخے ہیں لیکن ان میں سے مشہور ترین دو نسخے ہیں۔(1)مٔوطا بروایت امام محمد (2) مٔوطا بروایت امام یحی بن یحی مصمودی جو کہمٔوطا امام مالک کے نام سے مشہور ہے ۔ بعض ناقدین کے نزدیک ’مٔوطا امام محمد کو مٔوطا امام مالک پر کئی وجوہات سے فوقیت حاصل ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں:(1)امام محمد کو امام یحییٰ بن یحییٰ پر علمِ حدیث اور علم فقہ میں برتری حاصل ہے ۔ (2)امام یحی بن مصمودی مکمل طور پر مٔوطا امام مالک کی سماعت امام مالک سے نہ کرسکے ، کیونکہ جس سال وہ حاضرِ خدمت ہوئی اسی سال امام مالک کا وصال ہوگیا تھا۔جبکہ امام محمد نے تین سال سے زائد عرصہ امام مالک کے پاس قیام کیا اور براہِ راست ان سے روایات کا سماع کیا۔