جملہ ائمہ ومورخین کا اتفاق ہے کہ امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ کی پیدائش ۱۳۲ہجری بمطابق ۵۴۸ء مدینہ منورہ میں بروز جمعرات کو ہوئی ۔ (تاریخ بغداد) آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو محمداور لقب عسکری تھا۔ جب کہ شیخ دیار بکری نے ’’تاریخ الخمیس‘‘ میں آپ کے مزید القابات کا ذکر کیا ہے جن میں الزکی، الخاص، السراج ہیں۔ اورآپ کا لقب الخالص ، سمع النجوم میں شیخ عصامی مکی نے ذکر کیا ہے ۔ امام سمعانی علیہ الرحمہ نے مقام البلاذری کا ذکر کرتے ہوئے محدث ابو محمد احمد بن محمد بن ابراہیم طوسی بلاذری الواعظ متوفی ۹۳۳ ہجری ، امام حاکم کے استاذ نیشاپوری کو آپ رضی اللہ عنہ کے تلامذہ میں ذکر کیا ہے ۔ کہتے ہیں: انہوں نے سیدنا حسن عسکری رضی اللہ عنہ سے مکہ مکرمہ کے مقام پر کتاب حدیث بیان کی ۔ پس آپ ذکر کرتے ہیں: انہوں نے مکہ مکرمہ میں اہل بیت کے امام ابو محمد حسن( عسکری) بن علی بن محمد بن علی بن موسیٰ الرضا سے احادیث لکھیں۔ نویں صدی کے ممتاز محدث امام جلال الدین سیوطی نے ایک حدیث کی تشریح وتوضیح میں محدث ابو بکر احمد شیرازی کی کتاب’’ الالقاب‘‘ کے حوالے سے ایک تابع کا ذکر کیا ہے جس کی سند میں ’’ حسن بن محمد بن علی بن موسیٰ الرضا ‘‘ ہے ۔ مذکورہ سند اس طرح ہے :’’ انبانا ابو بکر محمد بن احمد بن عقیل الوراق ، حدثنا ابو محمد احمد بن محمد بن ابراہیم بن ہاشم البلاذری الحافظ ، حدثنا الحسن بن محمد بن علی بن موسیٰ الرضیٰ بہ‘‘ ( اللالی المصنوعۃ للسیوطی، ج۱،ص۷۳) مذکورہ سند میں علامہ بلاذری نے سیدنا امام حسن عسکری سے روایت کی ہے جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ آپ کے شاگردوں میں علامہ بلاذری جیسے محدث ومورخ ہیں جس سے آپ رضی اللہ عنہ کی علمی خدمات کا انداز ہ ہوتا ہے ۔ شیخ ابن حجر مکی’’ الصواعق المحرقہ ‘‘ میں ذکر کرتے ہیں: آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ’’بہلول‘‘ کا ایک واقعہ پیش آیا اور وہ اس طرح کہ بہلول نے انہیں بچپن میں دیگر بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا کہ آپ رو رہے ہیں تو انہوں نے خیال کیا کہ آپ ان چیزوں کو دیکھ کرجو ان بچوں کے پاس ہیں حسرت سے رو رہے ہیں، تو بہلو ل آپ سے کہنے لگے ۔ کیا میں وہ چیزیں خرید کر آپ کو لے دوں۔ جن کے ساتھ تم بھی کھیلو، تو آپ نے فرمایا: اے کم فہم! ہم کھیلنے کے لئے پیدا نہیں ہوئے ، اس پر بہلول نے کہا: پھر ہماری پیدائش کس مقصد کے لئے ہوئی ہے ؟ آپ نے فرمایا: علم ، عبادات کے لئے ، پس بہلول نے مزید پوچھا، آپ کو یہ باتیں کہاں سے معلوم ہوئی ہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے :’’ تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں۔‘‘ ( المومنون :۲۳،۱۱۵) تو بہلول نے کہا: مجھے کوئی نصیحت کریں۔ تو آپ نے انہیں چند اشعار سنائے ۔ اشعار سنانے کے بعد حضرت امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ خود غش کھا کر گر پڑے ، جب انہیں ہوش آیا تو حضرت بہلول نے ان سے کہا: آپ پر بھلا کیسی مصیبت نازل ہوئی؟ آپ تو چھوٹے بچے ہیں اور آپ کا کوئی گناہ بھی نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: اے بہلول! مجھ کو میرے حال پر رہنے دو۔ کیونکہ میں نے اپنی والدہ کو بڑی لکڑیوں کو آگ لگاتے ہوئے دیکھا ہے مگر وہ چھوٹی لکڑیوں کے بغیر نہیں جلتیں۔ اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں بھی جہنم کی آگ کے لئے چھوٹی لکڑیوں جیسا نہ بن جائوں۔( الصواعق المحرقہ ، ص۶۸۶) روض الریاحین فی حکایات الصالحین کے صفحہ ۸۲تا۸۴ میں اس طرح واقعہ ہے کہ حضرت بہلول کہتے ہیں جب وہ اپنی گفتگو سے فارغ ہوئے تو میں غش کھا کر گیا ، اسی دوران وہ صاحبزادہ کہیں چلاگیا پھر جب مجھے آفاقہ ہوا تو میں نے انہیں بچوں میں تلاش کیا مگر ان کا کوئی پتہ نہ چلا سکا ۔ تو میں نے وہاں موجود بچوں سے ان کے متعلق پوچھا توا نہوں نے کہا ، آپ انہیں نہیں جانتے تو میں نے کہا نہیں تو بچوں نے کہا: یہ صاحبزادہ تو حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم کی اولاد سے ہے ۔ تب میں نے کہا: میں حیران تھا کہ ایسا ثمر کہاں سے آیا ۔ واقعی یہ اسی درخت کا ثمر ہے ، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے اور اس کے آبائے کرام علیہم الرضوان کے فیضان سے مستفید فرمائے ۔ شیخ قرمانی ’’اخبار الدول‘‘ میں رقمطراز ہیں: ایک شخص نے محتاجی وتنگدستی سے عاجز آکر آپ سے خوشحالی کی دعا کے لئے کہا: تو آپ نے فرمایا: تمہارے چچازاد کا انتقال ہوگیا ہے اور اس نے ایک لاکھ درہم چھوڑے ہیں تو خوش ہوجائو وہ رقم عنقریب تمہیں ملنے والی ہے ، چنانچہ تھوڑے عرصہ میں اس کو اپنے چچا کے انتقال کی خبر ملی اور آپ رضی اللہ عنہ نے جو مال کا ذکر کیا تھا اسے وراثت میں مل گیا۔( اخبار الدول ، ج۱،ص۱۵۳) شیخ ابن حجر مکی شافعی کہتے ہیں: جب سیدنا حسن عسکری رضی اللہ عنہ کو محبوس کردیاگیا تو اسی دوران سامرا میں شدید قحط رونما ہوگیا چنانچہ خلیفہ معتمد بن متوکل نے لوگوں کو تین دن تک باہر نکل کر نماز استسقاء پڑھنے کا حکم دیا ، لیکن اس کے باوجود بارش نہ ہوئی ، اسی دوران ایک دن عیسائی اپنے ساتھ راہب کو لے کر نکلے اور جب وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتا تو بارش برسنے لگتی ، یہی معاملہ دوسرے دن بھی ہوا ، تو اس کو دیکھ کر بعض جاہل لوگ شک میں مبتلا ہوگئے جب کہ کچھ تو مرتد بھی ہوگئے ، یہ معاملہ دیکھ کر خلیفہ پریشان ہوگیا تو اس نے آپ کو قید سے لانے کا حکم دیا پھر آپ سے کہنے لگا: اپنے نانا جان کی امت کو سنبھال لیں، اس سے پہلے کہ وہ ہلاک ہوجائے ، تو آپ نے کہا: اب کل جب وہ عیسائی آئیں تو ان شاء اللہ میں شکوک کو ختم کردوں گا۔ اسی دوران آپ نے قید خانہ میں اپنے ساتھی کی رہائی کے متعلق بات کی تو خلیفہ نے اس کو رہا کردیا۔ چنانچہ دوسرے دن جب لوگ بارش کے لئے آئے تو اس راہب نے عیسائیوں کے ساتھ مل کر آسمان کی طرف ہاتھ بلند کئے اسی وقت آپ نے کہا: اس کا ہاتھ پکڑ لو ، جب دیکھا تو اس کے ہاتھوں میں انسانی ہڈی تھی۔ اس سے کہاگیا ، اب بارش برسائو ؟ لیکن اس کے ہاتھ اٹھانے کے ساتھ ہی بادل چھٹ گئے اور سورج نکل آیا ۔ سب لوگ اس پر بڑے حیران ہوئے تو خلیفہ نے کہا: اے ابو محمد! یہ سب کیا ماجرا ہے ؟ آپ نے جواب دیا :اس کے پاس کسی نبی کے جسم کے تبرک کا کچھ حصہ ہے جب اُس کو فضا میں لہرایا جائے تو بارش ہوجاتی ہے اورجب کپڑے میں چھپایا جائے تو باد ل ختم ہو جائیں گے ۔جب تحقیق کی گئی تو امرایسا ہی تھا ۔ اس طرح لوگوں کے شبہات زائل ہوگئے ۔ اور امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ کو گھر روانہ کردیا۔ جہاں آپ اکرام کے ساتھ مقیم رہے ۔ خلیفہ کی جانب سے انہیں انعامات دیئے گئے ۔ ( الصواعق المحرقہ، ص۸۸۲)