ایک روز قبل روزنامہ 92نیوز کے سرورق پر امام غزالیؒکی 909ویں برسی کی خبر پڑھی تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ سیاست اور پھر میڈیا کی’’آپا دھاپی اور ہڑ بونگ‘‘میں ایسی نابغہ روزگار ہستیوں کی طرف توجہ کی گنجائش ہی کہاں رہی ہے‘یہاں تک بڑی بڑی جامعات اور معروف دانشگاہیی بھی‘اب ایسی شخصیات اوران کے ان خاص ایام سے بے نیاز اور قدرے لاتعلق ہی رہتی ہیں۔امام غزالیؒ جب ظاہری علم کی گھٹن اور عجب سے تنگ آ کر،جامعہ نظامیہ بغداد کی چانسلر شپ کو خیر باد کہہ کر،بغداد سے نکل رہے تھے۔تو عین اسی وقت والدہ کی نصیحت پر عمل پیرا،الشیخ عبدالقادر جیلانیؒراستوں کے غبار پر صداقتوں کا نور بکھیرتے ہوئے گیلان سے بغداد کی طرف رواں دواں تھے۔دونوں ہی عالم اسلام کی ممتاز اور معتبر ہستیاں،عظیم نابغہ اور جینئس۔۔۔ لیکن ایک بنیادی طور پر فلسفی اور دوسرا پیدائشی طور پر صوفی،ایک کی برسی اتنی خاموشی سے کہ بس سنگل کالم کی ایک خبر اور ایک کا عرس گزشتہ ماہ یعنی ربیع الثانی میں‘ پوری دنیا میں’’بڑی گیارہویں شریف‘‘ کے نام سے منایا گیا بلکہ ہر قمری ماہ کی گیارہ کو بھی۔اصل میں ایک فلسفی اور صوفی میں یہی فرق ہے۔کہ فلسفی حقیقت کا فہم و شعور حاصل کرنے کے لئے عقل کو اپنا راہنما تسلیم کرتا ہے‘جبکہ صوفی۔۔۔وجدان‘عشق‘ذوق اور جذبے کی وساطت سے حقیقت اور معرفت تک پہنچتا ہے۔فلسفے اور تصوف کے مابین اس امتیاز کو ابوالسعید بن ابوالخیر کے اس قول کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔جو آپ نے معروف فلسفی ابن سینا کے اسرار کائنات سے متعلق ایک وقیع لیکچر کے اختتام پر فرمایا تھا۔ابو السعید بن ابوالخیر نے ابن سینا کی طویل گفتگو کے بعد فرمایا تھا کہ: آپ جو کچھ جانتے اور بیان کرتے ہو‘میں اسے آنکھوں سے دیکھتا ہوں۔ بقول اقبال: علم کی حد سے پرے‘بندۂ مومن کے لئے لذت شوق بھی ہے‘نعمت دیدار بھی ہے امام غزالیؒاور فلاسفہ کے درمیان بنیادی اختلاف بھی یہی رہا کہ فلاسفہ عقل کی برتری کے قائل تھے جب کہ غزالیؒ عقل کی نارسائی سے پوری طرح آگاہ۔بقول اقبال: عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں حجتہ الاسلام ابو حامد محمد بن محمد الطّوسی الشافعی الغزالیؒ 1058ء بمطابق 450ھ خراسان کے علاقہ طْوس میں پیدا ہوئے۔ غزالی آپ کا خاندانی نام تھا۔غزل‘کا مطلب ہے’’کاتنا‘‘ آپ کے خاندان کا ذریعہ معاش کپڑوں کی بْنائی تھا۔جس کے سبب غزالی کے طور پر معروف ہوئے۔غزالیؒکے والد تعلیم سے محروم رہے،جس کا ان کو شدت سے احساس تھا۔ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا علم و فضل کے میدان میں نامور ہو۔قدرت نے ان کی اس خواہش کو پورا کیا اور آگے چل کر غزالیؒنے مسلم مفکرین میں ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا۔ امام غزالیؒامتِ مسلمہ کے وہ ’’نابغہ‘‘ ہیں جنہوں نے الٰہیات ‘تصوف ‘منطق‘اخلاقیات اور علوم دین میں لافانی نقوش ثبت کئے۔امام غزالیؒنے ابتدائی تعلیم عام مدارس سے حاصل کی نیشا پور میں امام الحرمین کے روبروزانوئے تلمذ طے کیا‘جو اپنے عہد کی مقتدر علمی شخصیت تھے۔ان کے فیض صحبت سے غزالیؒ کو علوم میں خصوصی مہارت میسر آئی‘ امام صاحبؒابھی چونتیس سال ہی کے تھے کہ ان کی شخصی عظمت اور علمی سطوت کا ڈنکا بجنے لگا۔ غزالیؒ کی علمی شہرت اور قدر و منزلت کی وجہ سے‘معروف سلجوقی فرمانروا الپ ارسلان اور اس کے معتمد وزیر نظام الملک نے انہیں بغداد میں’’مدرسہ نظامیہ‘‘کی مسند تدریس پیش کی۔امام غزالیؒ نے اس منصب کو نہایت عمدگی سے نبھایا اور بہت جلد ان کا شمار عمائدین سلطنت میں ہونے لگا۔قدرت نے آپ کو دینی اور دنیاوی اعتبار سے وہ بلندی اور عروج عطا کیا جو شاید کسی اور کو نصیب نہ ہو سکا۔ غزالیؒ کے نظام فکر میں سب سے زیادہ اہمیت ان کے انداز فکر‘طرز زیست اور منہجِ تحقیق کی ہے۔آپ کا تعلق مفکرین اور فلاسفہ کے اس گروہ سے ہے جن کا انداز فکر خود ان کی اپنی زندگی کا ایک حصہ ہوتا ہے۔چنانچہ اسی طریقہ کار کی وضاحت ہمیں خود ان کی داستان حیات میں ملتی ہے۔جس کو آپ نے اپنی کتاب’’المنقذمن الضلال‘‘ کی صورت میں قلمبند کیا۔34سال کی عمر میں مدرسہ نظامیہ کے’’صدر نشین‘‘کی مسند پر متمکن ہونا۔ امام غزالیؒ کے تبحر علمی اور ان کی عظمت و شوکت کا آئینہ دار ہے۔علمی اور دینی حوالے سے اس دنیا میں جو عظمتیں اور رفعتیں ہو سکتی ہیں وہ سب امام غزالیؒ کو میسر تھیں۔ عام روش کا تقاضا تھا کہ امام صاحبؒ بقیہ زندگی اپنے اسی دائرہ فکر و عمل میں بسر کر دیتے۔ لیکن شاید وہ اس افتاد کے آدمی نہ تھے،وہ کہتے ہیں کہ میں نے محسوس کیا کہ علوم کی یہ تدریس اور منصبی اعزاز و اکرام۔مجھے قلبی اطمینان اور سکون عطا نہ کر سکا۔وہ خود لکھتے ہیں: مجھ پر یہ اچھی طرح سے واضح ہو چکا تھا کہ سعادتِ اْخروی کی صورت صرف یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کیا جائے اور نفس کو اس کی خواہشات سے روکا جائے اور اس کی تدبیر یہ ہے کہ دارفانی سے بے رغبتی‘آخرت کی طرف میلان و کشش اور پوری یکسوئی کے ساتھ توجہ الی اللہ کے ذریعہ قلب کا علاقہ دنیا سے ٹوٹ جائے۔لیکن یہ جاہ و مال سے اعراض اور مواقع و علائق سے فرار کے بغیر ممکن نہیں‘میں نے اپنے حالات پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میں سرتاپا علائقِ دنیوی میں غرق ہوں۔میرا سب سے افضل عمل تدریس و تعلیم کا معلوم ہوتا تھا لیکن ٹٹولنے سے معلوم ہوا کہ میری تمام تر توجہ ان علوم پر ہے،جو نہ تو اہم ہیں اور نہ آخرت کے سلسلہ میں کچھ فائدہ پہنچانے والے‘میں نے اپنی تدریس کی نیت کو دیکھا تو وہ بھی خالص لوجہ اللہ نہ تھی‘بلکہ اس کا باعث و محرک بھی محض طلبِ جاہ و حصولِ شہرت تھا‘تب مجھے یقین ہو گیا کہ میں ہلاکت کی غار کے کنارے کھڑا ہوں‘ اگر میں نے اصلاحِ حال کی کوشش نہ کی تو میرے لئے سخت خطرہ ہے۔‘‘ چنانچہ امام غزالیؒ یقینی علم‘باطنی نور اور حقیقی معرفت کی تلاش میں سرگرداں ہوئے جس کے لئے انہوں نے متکلمین‘ باطنیہ‘فلاسفہ اور صوفیاء کے علوم و معارف اور نظام تفکر و تدبر کا مطالعہ کیا۔اوّل الذکر تینوں گروہوں کے علوم و عقائد امام صاحبؒکو مطمئن نہ کر سکے۔چنانچہ سب سے آخر میں صرف تصوف باقی رہ گیا جس کے لئے امام صاحبؒ فرماتے ہیں: ’’سب سے آخر میں‘ میں نے تصوف کی طرف توجہ کی‘اس فن میں حضرت جنیدؒ‘ شبلیؒ‘بایزید بسطامیؒکے جو ملفوظات ہیں‘ ان کو دیکھا‘ابو طالب مکّی کی قوّت القلوب اور دیگر صوفیاء کی تصنیفات پڑھیں‘لیکن چونکہ یہ فن دراصل عملی فن ہے اس لئے صرف علم سے کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہو سکتا تھا اور عمل کے لئے ضروری تھا کہ زہد و ریاضت اختیار کی جائے۔ادھر اپنے اشغال کو دیکھا تو کوئی خلوص پر مبنی نہ تھا۔ درس و تدریس کی طرف طبیعت کا میلان اس وجہ سے تھا کہ وہ جاہ پرستی اور شہرت عامہ کا ذریعہ تھی۔ان واقعات نے دل میں تحریک پیدا کی کہ بغداد سے نکل کھڑا ہوں اور تمام تعلقات کو چھوڑ دوں۔یہ خیال رجب 488ء میں پیدا ہوا‘ لیکن چھ مہینے تک لیت و لعل میں گزرے۔ (جاری ہے)