لوگ دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو دنیا میں آئے چند دن گزارے ، قبر کے مہمان بنے اور کچھ عرصے بعد ان کا نام و نشان تک ختم ہوگیا۔ دوسرے وہ جو اپنی چند روزہ زندگی میں ایسا عظیم کردار اور علمی خدمات پیش کرکے رخصت ہوئے کہ موت نے اگرچہ ان کے جسم کوبھی تہہ مزار پہنچا دیا مگر ان کا نام رہتی دنیا تک جگمگاتا رہے گا ۔ ایسے ہی نیک بختوں میں ایک امام محمد بن حسن شیبانی علیہ الرحمۃ بھی ہیں۔ امام محمد بن حسن شیبانی (المتوفی: 189ھ ) امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے دو عظیم الشان تلامذہ میں سے ایک اور ان کے تبحر علمی اور تفقہ فی الدین کے مظہر اتم ہیں۔ امام محمد بن حسن رحمہ اللہ کا یہ اعزاز ہے کہ آپ صرف فقہ حنفی کے امام نہیں بلکہ اہل سنت کے دیگر تینوں مذاہب فقہیہ میں بھی ایک قابل قدر مقام رکھتے ہیں۔ ولادت واسم گرامی :آپ کا نام محمد بن حسن بن فرقد شیبانی اور کنیت ابو عبد اللہ ہے ۔ آپ کی تاریخ ولادت کے حوالے سے مؤرخین میں کافی اختلاف ہے ، اصح بات یہ ہے کہ آپ 131ھ کے اواخر یا 132ھ کے اوائل میں عراق کے شہر واسط میں پیدا ہوئے اور حدیث و فقہ کے مرکز کوفہ میں نہایت خوش حالی میں بچپن ، لڑکپن اور جوانی دیکھی ۔ ابتدائی تعلیم:پڑھنا لکھنا سیکھنے کے بعد امام محمد رحمہ اللہ نے قرآن کریم کا اور احادیث نبویہ کا کچھ حصہ حفظ کیا۔ پھر آپ کو عربی زبان و ادب کے اسباق میں شرکت کا شوق ہوا، کوفہ اس وقت حرمین شریفین کے بعد علوم عربیہ کا مرکز تھا، علم اور اہل علم کی وہاں پر کثرت تھی ، وہاں کی مساجد تفسیر ، حدیث، فقہ ، نحو، ادب اور لغت کے دروس سے گونجتی رہتی تھیں۔امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ نے شاید اسی بناء پر اسے مدینۃ العلم قرار دیا ۔ امام محمد رحمہ اللہ کے والد کا گھر ساز و سامان اور مال ودولت سے بھرا ہوا تھا ۔ اس مال و دولت نے آپ کوبے مقصد زندگی گزارنے کی بجائے تعلیم و تربیت اور تالیف و تدوین کے لیے زندگی وقف کرنے میں بھرپور مدد کی۔ اخلاق و عادات:امام محمد رحمہ اللہ صاحب ذوق لطیف، صاحب فہم و فراست، صاحب زبان، صحت مند، مضبوط جسم ، قوت حافظہ اور غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ، حد درجہ صالح، روشن ضمیر ، عالی النظر، وجیہ صورت اور صفات حمیدہ سے موصوف تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مال و دولت ، حسن و جمال اور ذہانت و فطانت سے خوب نوازا تھا لیکن نہ مال آپ کو اپنی طرف کھینچ سکا ، نہ حسن و جمال نے کبھی غرور و گھمنڈ میں مبتلا کیا اور نہ ہی ذہانت و فطانت نے حصول اقتدار کا راستہ دکھایا۔ جود وسخا، اسراف و اقتار سے دوری، جرأت و بہادری، نرم مزاجی وتواضع اور وسعت نظر میں اپنی مثال آپ تھے ۔ علمی مقام و مرتبہ:آپ کی سیرت کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ نے اپنی مکمل زندگی حصول علم اور درس و تدریس کے لیے وقف کر رکھی تھی ۔ آپ صرف علم فقہ کے ہی نہیں بلکہ اس زمانے کے سبھی علوم تفسیر، حدیث ، لغت اور ادب میں بھی امامت کے درجے پر فائز نظر آتے ہیں۔ امام شافعی علیہ الرحمۃ کا کہنا ہے کہ میں نے امام محمد جیسا ذوق لطیف رکھنے والا کوئی نہیں دیکھا، ان کے جیسا فصیح و بلیغ مجھے کہیں نہیں ملا، جب میں انہیں قرآن حکیم کی تلاوت کرتے دیکھتا تو یوں محسوس ہوتا کہ قرآن حکیم انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے ، میں نے کسی مسئلہ کے بارے میں جب بھی کسی سے دریافت کیا تو اس نے جواب میں امام محمد کا حوالہ ضرور پیش کیا۔ فقہی خدمات:امام محمد بلا شبہ فقہ کے امام ، مجتہد ،صاحب تصانیف کثیرہ اورایسے عظیم فقیہ ہیں جنہوں نے ایک لاکھ سے زائدفقہی مسائل کا استنباط کیا،کثیر تعداد میں بڑی عمدہ نادر کتب تصنیف کیں اور بے شمار ماہر علم وفن تلامذہ چھوڑے ۔ آپ کی عمر کا بیشتر حصہ فقہی تحقیقات اور مسائل کے استنباط اور اجتہاد میں گزارا ۔آپ کی کتابوں کی وجہ سے ہی فقہ حنفی کااطراف و اکناف عالم میں تعارف و روشناسی ہوئی ۔ امام محمد علیہ الرحمۃ کے ہاتھوں ہی سے امام ابوحنیفہ کافقہی مذہب پھیلا ہے ۔ آپ کی تصانیف میں سے جو چھ کتابیں زیادہ مشہور ہیں اور جنہیں ظاہر الروایۃ کہا جاتا ہے وہ یہ ہیں :(۱) المبسوط : اس کتاب میں سینکڑوں مسائل کے حوالے سے امام ابو حنیفہ کے فتاوی جات ذکر کیے گئے ہیں، اس میں وہ مسائل بھی بیان ہوئے جو شیخین کے درمیان اختلافی ہیں ۔ (۲)الجامع الصغیر: مختصر مگر جامع کتاب ہے ، اس میں کل 532مسائل درج ہیں جن میں 170میں امام محمد نے اپنے فقہی و اجتہادی ذوق کے مطابق الگ رائے قائم کی۔ (۳)الجامع الکبیر: اہم ترین اور دقیق ترین کتاب ہے ، علم فقہ کے اہم مسائل کا بہت بڑا مجموعہ ہے ، علم فقہ میں اس جیسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ۔ (۴)السیر الصغیر : مسلم و غیر مسلم کے باہمی روابط پر قانون کی تاریخ میں سب سے پہلا لکھا جانے والا ایک لازوال علمی شہکار ہے ۔ (۵)السیر الکبیر: یہ مسلمان ریاست کی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے لکھی گئی انتہائی اہم کتاب ہے ۔ (۶) الزیادات : جو مسائل الجامع الکبیر سے رہ گئے انہیں اس کتاب میں مرتب کیا گیا ہے ۔ وصال : امام محمد علیہ الرحمۃ نے اٹھاون سال کی عمر میں 189ھ کو وفات پائی ۔ ایک قول کے مطابق عین اسی دن نحو کے امام الکسائی کی بھی وفات ہوئی۔ان دونوں حضرات کے لیے خلیفہ ہارون الرشید نے ان لفظوں میں تأثرات کا اظہار کیا کہ آج میں نے ’’الری ‘‘ میں فقہ اور نحو دونوں کو دفن کر دیا۔