گزشتہ سات عشروں سے بھارت کشمیرپرفوجی جارحیت کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیرپرمسلسل تہذیبی جارحیت کابھی ارتکاب کررہاہے۔ ہندو مت کی بنیادجن دیومالائی کہانیوںپرہے ان میںسے ہندئووں نے ایک کہانی یہ بھی گھڑ لی ہے کہ کشمیرکے جنوبی ضلع اسلام آباد میں انکے گروشیودیوکی رہائش گاہ تھی۔سرینگر سے جنوب کی جانب 88کلومیٹر پر واقع مشہور سیاحتی مقام پہلگام ہے۔ وہاں سے 45کلومیٹر کی دوری ، فلک بوس پہاڑی سلسلوں کے درمیان سطح سمندر سے 3888فٹ کی بلندی پر واقع ایک حجرہ نما غار ہے۔اس گھپا کو امرناتھ گھپا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ علاقے میں موسم ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے برف ایک مخصوص صورت میں جم جاتی ہے، جس کو ہندو دھرم میں شیولنگ کہتے ہیں۔ ہرسال بھارت کی مختلف ریاستوں سے ہندو عقیدت مند شیولنگ کے درشن کے لیے آتے ہیں۔ کہاجاتاہے کہ بٹہ ملک جو کہ چرواہا تھے، نے اس گھپا کو دریافت کیا۔ 1860 ء سے ہی، جب سے امرناتھ یاتراشروع ہوئی، کا نظم و نسق مسلمان تکمیل تک پہنچاتے اور اس سلسلے میں اپنارول نبھاتے تھے۔ دیومالائی کہانی کی بنیادپربھارت بھرسے لاکھوں ہندوہرسال مقبوضہ کشمیر کارخ کرتے ہیں اورکم ازکم تین ماہ تک وہ مقبوضہ کشمیرکے شفاف اورپرفضاماحول کوآلودہ کرتے ہیں۔خیال رہے کہ مقبوضہ وادی میں کشمیری ہندئووں کی کل تعداددولاکھ سے زائدنہیں ہے اوروہ بھی سارے کے سارے 1990ء میں جہادکشمیرشروع ہوتے ہی کٹھ پتلی انتظامیہ جواس وقت فسطائی ذہنیت کے گورنرجگ موہن کے ماتحت تھی کی ایماپرمسلمانان کشمیرکودہشتگردبھارتی فوج کے رحم وکرم پرچھوڑ کروادی کشمیرچھوڑ کرجموں ،دہلی اوربھارت کے دیگر صوبوں میں مقیم ہوئے اورتب سے حکومت بھارت ماہانہ ان پرکروڑوں رقوم صرف کرکے انہیں زندگی کی ہرسہولت سے نوازتی چلی جارہی ہے ۔ ہرسال جون کے وسط یاپھراس کے اواخرمیں شروع ہونے والی امرناتھ یاتراجواگست کے اواخرتک جاری رہتی ہے کے لئے مقامی ہندئووں سے ہزارگنازیادہ بھارتی ریاستوں سے ہندومقبوضہ کشمیرپہنچ جاتے ہیں۔اس سلسلے میں تادم تحریر تاحال12لاکھ سے زائدبھارتی ہندئووںنے اس سالانہ امرناتھ یاترا میں حصہ لینے کے لئے اپنے ناموں کا اندراج کرایا ہے۔جبکہ ہندئووں کی سالانہ امرناتھ یاترا کی آڑ میں مقبوضہ کشمیرمیں مزیدفوج کشی کی ہے اور 200اضافی کمپنیاں تعینات کردی گئی ہیں۔ ہر کمپنی کم از کم ایک سو اہلکاروں پر مشتمل ہے۔ سی آر پی ایف اور ایس ایس بی کی نئی کمپنیوں کی تعیناتی وادی میں پہلے سے موجود پیرا ملٹری اور ریاستی پولیس کے اضافی ہے۔ 1990ء سے قبل امرناتھ یاتراکی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی محض چندسوندوخاموشی کے ساتھ اس پہاڑی غارتک پہنچ کرخاموشی کے ساتھ واپس چلے جاتے تھے لیکن جہادکشمیرکے شروع ہوتے ہی دہلی سرکاراورکٹھ پتلی ریاستی انتظامیہ نے ہندئووں کی اس یاتراکوسرکاری طورپرپذیرائی بخشی اوربھارتی ریاستوں سے ہندئووں کوبڑے پیمانے پریہاں بلاناشروع کیا۔ دہلی سرکاراورکٹھ پتلی ریاستی انتظامیہ نے امرناتھ پہنچانے کیلئے بھارت کے ہندئووںکوتمام ترسہولیات دینے کے لئے ہندو شرائن بورڈ قائم کیااوراسے سالانہ کروڑوں روپے فنڈز دیئے جارہے ہیں۔خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیرمیںہندئووں کی مندروں کے تحفظ اورا مرناتھ یاترا کے انتظامات کے لئے بھارت نواز نیشنل کانفرنس کے دور اقتدار میں شری امرناتھ شرائن بورڈ تشکیل دیا گیا تھا۔ 2008ء میں دہلی سرکاراورکٹھ پتلی ریاستی انتظامیہ نے ہندئووںکے اس شرائن بورڈ کووادی کشمیرکے ایک بڑے سیاحتی مقام ’’سونہ مرگ‘‘کی کروڑوں مالیت کی کئی ایکڑاراضی منتقل کی جسکے خلاف اسلامیان کشمیرآتش زیرپاہوئے ۔اسلامیان کشمیرکاموقف تھاکہ کشمیرکی اراضی کسی بھی طرح ہندئووں کے شرائن بورڈ کومنتقل نہیں کی جاسکتی ہے کیوںکہ بھارت کے ہندئووں کوارض کشمیرپرقبضہ جمانے کاکوئی حق موجود نہیں۔اسلامیان کشمیرکے اس احتجاج نے کئی مہینوں تک طول پکڑااس دوران حالات اس وقت بالکل بے قابوہوئے کہ جب بھارتی قابض فوج نے مظاہرین پراندھادھندفائرنگ کرتے ہوئے بیسیوں کشمیری نوجوانوں کوشہیدکرکے جلیانوالہ باغ کاری پلے کیا۔اس ظلم عظیم کے باوجود جب اسلامیان کشمیر کا احتجاج تھم نہ سکا تو مقبوضہ جموں وکشمیر میں کانگریس کی سربراہی والی مخلوط کٹھ پتلی حکومت کے کٹھ پتلی وزیر اعلی غلام نبی آزاد کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ تب سے اسلامیان کشمیر اور حکومت بھارت کے درمیان امرناتھ کا معاملہ ایک بڑے قضیہ کے ساتھ چلاآرہاہے۔ اسلامیان کشمیرکامطالبہ ہے کہ اس یاتراکے لئے بھارتی ہندئووں کی بڑے پیمانے پرمقبوضہ کشمیرآمدکوروکاجائے اوراس یاتراکی مدت بھی تین ماہ سے کم کرکے پندرہ دن رکھی جائے جائے تاہم ضدپراتری ہوئی دہلی سرکارکٹھ پتلی کشمیرانتظامیہ پراپنادبائو برقراررکھے ہوئے ہے کہ وہ اس یاترامیں مزیدلاکھوںہندئووں کی شمولیت کویقینی بنائے اوراس کی مدت بھی بڑھادی جائے ۔اس سے صاف ظاہرہورہاہے کہ محض ایک دیومالائی کہانی گھڑ کر بھارت کشمیرپرکس طرح تہذیبی جارحیت کوفروغ دے رہاہے۔اس کے سامنے کشمیریوںکی چیخ وپکار،احتجاج اوران کی شہادتیںکوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے مقامی حکومت کو ہدایات دی تھیں کہ وہ ساڑھے تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع امرناتھ غار تک پختہ شاہراہ تعمیر کرائے۔ بھارتی سپریم کورٹ کایہ آرڈر اس امرکی تصدیق کررہاہے کہ بھارت کس حدتک مقبوضہ کشمیرمیں ہندونشانات کوتحفظ دے رہاہے۔بھارتی سپریم کورٹ کے اس ناجائز فیصلے سے اسلامیان کشمیر کو خدشہ لاحق ہوچکاہے کہ اس سڑک کی تعمیر سے امرناتھ یاترا سیاسی اور فوجی عزائم کی تکمیل کا ’’لانچ پیڈ‘‘بن جائے گا۔قابل ذکر ہے کہ2008 ء میں جب بھارتی گورنر کی سربراہی والے شرائن بورڈ نے بال تل میں آٹھ سو کنال اراضی پر قبضہ کیا، تواسی وقت کشمیری مسلمان حکومت بھارت کے مذموم عزائم کوسمجھ چکے تھے ۔یعنی وہ یہ بات بخوبی سمجھ گئے کہ اس یاترا کے لیے لاکھوں ہندوستانیوں کو سرکاری طور پر مدعو کرنے کا مقصد عالمی برادری کو گمراہ کرنا ہے۔ دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کشمیر تو پورے ہندوستان کے لیے ایک مذہبی مقام ہے، اس کو الگ کیسے کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ بھارتی ہندئووں کی اس یاترا کے لیے لاکھوں لوگوں کی آمد سے ماحولیات کے لیے بھی خطرات لاحق ہیں۔ملت اسلامیہ کشمیریہ مطالبہ کررہے ہیں کہ امرناتھ یاترا کی مدت کو کم کیا جائے۔ بھارتی ہندئووں کی یہ یاترادراصل مقبوضہ کشمیرپربھارت کی تہذیبی جارحیت ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ مسلم کشمیرپرہندئووں فسطائی طاقتوں کی چڑھائی ہے۔کشمیرمیں مسلح جدوجہدسے قبل 1989 ء میں بھارت سے آنے والے ہندویاتریوں کی تعداد صرف12 ہزار تھی، مگر گزشتہ سال یہ تعداد قریب12لاکھ تک پہنچ گئی۔ ہزارگناتعدادبڑھنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ بھارتی ریاستوں سے ہر سال زیادہ سے زیادہ ہندئووں کو امرناتھ یاترا کی طرف راغب کرانے میں ہندو انتہا پسند کافی زور لگائے ہوئے ہیں۔