امریکی محکمہ خارجہ نے کئی برس کی خاموشی کے بعد دو جولائی کو بلوچستان میں سرگرمِ عمل علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی یا (بی ایل اے) کو’عالمی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دے کر دو واضح پیغام دیئے ہیں۔ اس اقدام سے اس نے ایک طرف ان قیاس آرائیوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا ہے کہ امریکہ خفیہ طور پر بلوچستان میں ایک دہائی سے جاری علیحدگی پسند تحریک کی حمایت کر رہا ہے تو دوسری طرف ٹرمپ انتظامیہ نے بھی بلوچ رہنماوں کو واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ واشنگٹن سے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ اسلام آباد اور چین کے خلاف ان کی بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیوں کی حمایت کریں گے۔اسلام آباد میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جب بھی بھارت اور افغانستان کسی معاملے پر پاکستان کو شرمندہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ فوری طور پر بلوچستان اور اس سے منسلک حقوق انسانی کا معاملہ اٹھاتے ہیں۔ لہذا ٹرمپ انتظامیہ کے حوالے سے بھی یہی اندیشہ تھا کہ کہیں وہ افغانستان میں جاری جنگ میں پاکستان کے غیر تسلی بخش تعاون کو بہانہ بنا کر پاکستان کے خلاف ’بلوچستان کارڈ‘ استعمال کریں گے۔ صدر ٹرمپ کی دائیں بازو کی جماعت ری پبلکن پارٹی کے اراکین سے قبل یہ حربہ 2012 میں اس وقت اپنایا تھا جب انھوں نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد احتجاجاً بلوچستان پر ایک متنازع کانگریسی سماعت کا انعقاد کیا تھا جس کے فوری بعد ’آزاد بلوچستان‘ کے حق میں ایک قرار داد بھی پیش کی تھی (جوکچھ عرصہ کے بعد انتظامی سرد خانے کی نظر ہوگئی)۔ اگرچہ پاکستان اور برطانیہ کی حکومتوں نے بی ایل اے کو کئی سال قبل دہشت گرد قرار دیا تھا، امریکہ نے یہ فیصلہ کرنے میں کئی سال لگائے۔ باور کیا جاتا ہے کہ امریکہ نے یہ فیصلہ چین اور پاکستان کی مشترکہ مطالبہ پر کیا ہے۔ اس کے عوض امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات میں واشنگٹن کی بھر پور معاونت کرے۔ بی ایل اے ہی کیوں؟ اگرچہ بلوچستان میں کئی مسلح تنظیمیں ریاست کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ تاہم بی ایل اے باقی تمام تنظیموں سے پہلے منظرعام پر آئی تھی اور حکومتی اہلکار اور قومی ذرائع ابلاغ کے نمائندے بیشتر اوقات بلوچستان کی آزادی کی تحریک اور وہاں ہونے والی پرتشدد کارروائیوں کوصرف بی ایل اے ہی سے منسوب کرتے ہیں۔ بی ایل اے باقی تنظیموں سے زیادہ توانا اور منظم سمجھی جاتی ہے اور حال میں اس نے چینی شہریوں اور مفادات پر بلوچستان میں حملوں کو اپنی ترجیحی بنانے کا اعلان کیا تھا۔ دیگر مسلح تحاریک اور تنظیموں کے برعکس بی ایل اے کا کوئی وضح سیاسی ونگ موجود نہیں ہے۔ تاہم بلوچ نیشنل موومنٹ اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن( آزاد) ان کی سیاست اور پالیسیوں کی کھلے عام حمایت کرتی ہیں۔ بی ایل اے کی قیادت کے بارے میں قیاس آرائیاں تو ہوتی رہتی ہیں لیکن حقیقی معنوں میں کوئی رہنما خود کو اس تنظیم کا سرپرست ظاہر نہیں کرتا۔ میں نے ایک مرتبہ بزرگ بلوچ قوم پرست رہنما مرحوم خیر بخش مری سے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ وہ بی ایل اے کے سربراہ ہیں، انھوں نے مسکرا کر کہا ’ایسا اقبال جرم کون کرتا ہے؟‘ امریکہ کی بیزاری اگرچہ بی ایل اے چاہتی ہے کہ اپنی کارروائیوں سے دنیا کی توجہ بلوچستان کی جانب مبذول کرے، امریکی حکومت کے فیصلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ممالک کسی بھی سیاسی اور مذہبی مقصد کے حصول کے لیے پرتشدد تحریک کے حق میں نہیں ہیں۔ امریکی بلوچ گیارہ ستمبر کے بعد امریکہ میں بلوچ سوسائٹی آف نارتھ امریکا ( بی ایس او این اے) اور امریکن فرینڈز آف بلوچستان نامی دو تنظیمیں منظر عام پر آئیں لیکن دونوں تنظیمیں کبھی آزاد بلوچستان تحریک کے حق میں اور کبھی مخالفت میں بیانات دے کر غیر مستقل مزاجی اور غیر سنجیدگی کی وجہ سے بہت جلد ہی اپنی اہمیت و افادیت کھو بیٹھیں۔ اگرچہ بلوچستان میں مسلح تنظیمیں باقاعدگی سے سرگرم ہیں، امریکہ میں بلوچ تحریک سیاسی خلا کاشکار ہے جس کے باعث بلوچ رہنما امریکی پالیسی سازوں کولابینگ کے ذریعے بلوچستان کے اصل سیاسی مسئلے کے بارے میں آگاہی فراہم نہیں کر پا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ تحریک اپنی سیاسی بنیاد و مطالبات کی بجائے بلوچستان میں ہونے والی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے جانی جا رہی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ واشنگٹن کے اس فیصلے کے بعد بلوچ امریکہ تعلقات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ اب تک بلوچ قوم پرست اور امریکہ صرف ایک مرتبہ آمنے سامنے رہے ہیں جب 10 سال قبل بلوچ یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ نامی ایک تنظیم نے ایک امریکی شہری اور اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کوئٹہ پروگرام کے سربراہ جان سولیسکی کو کوئٹہ سے اغوا کیا تھا۔ ان کی رہائی دو مہینوں کے مذاکرات کے بعد عمل میں آئی تھی۔ بی ایل اے پر اثربی ایل اے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے فیصلے سے ان کی تحریک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ماضی میں بھی انہیں امریکہ کی حمایت حاصل نہیں رہی ہے۔ بلوچ تحریک کے بیشتر اہم رہنما یورپ میں مقیم ہیں اور امریکہ تاحال بلوچ قوم پرستوں کا گڑھ نہیں رہا ہے۔ چند ماہ قبل میں نے بی ایل اے کے کمانڈر اسلم بلوچ سے ان کی ہلاکت سے پہلے ایک انٹرویو میں پوچھا کہ اگر دنیا ان کی تحریک کو بطور دہشت گرد تحریک دیکھے گی تو کیا اس سے ان کے قومی کاز کو نقصان نہیں پہنچے گا تو انہوں نے کہا ’اس سے زیادہ کہ لوگ کیا سمجھتے ہیں ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم لوگوں کو کیا سمجھا سکتے ہیں۔۔۔یہاں دہشت گردی کی تعریف اپنے اپنے مفادات کے تحت کی جاتی ہے۔ اگر اس حوالے سے ہم دیکھنا شروع کریں تو ہماری جدوجہد کسی کی بھی تعریف پر پورا نہیں اترے گی۔ ہم اپنے قومی مفادات اور اپنے دفاعی تقاضوں کے تحت فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر یہ دیکھنے بیٹھ جائیں کہ لوگ کیا سمجھتے اور کہتے ہیں تو شاہد پھر ہمارے لیے ان حالات میں بچانے کیلیے کچھ بھی نہ رہے۔‘ اسی کی دہائی کے برعکس موجودہ دور کے بلوچ قوم پرست چین کے مقابلے میں امریکہ پر اس لیے کم تنقید کرتے آ رہے ہیں کہ شاید ایک نہ ایک دن واشنگٹن ان کی تحریک کی حمایت کرے گا۔ فی الحال یہ امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔ (بشکریہ انڈیپنڈنٹ)