امریکہ کے وزیر خارجہ اینتھنی جے بلنکن نے 26 مئی 2022 کو ایشیا سوسائٹی سے خطاب میں جو تقریر کی اسکا موضوع امریکہ کی چین پالیسی تھا۔ اپنی پوری تقریر میں انہوں نے وہ تمام الزامات چین پر دھرے جن سے ثابت ہو سکے کہ چین دنیائے امن کے لیے خطرناک ہے۔اسی لیے بقول بلنکن چین کو قابو اور دباو میں رکھنا بے حد ضروری ہے۔بلنکن کے مطابق چین ورلڈ آرڈر کے لیے ایک مستقل چیلنج ہے اور اسے ہر ممکن طور پرتباہ کرنا چاہتا ہے جبکہ امریکہ ریاستی خودمختاری، انسانی حقوق اور امن و سلامتی کے قیام کی خاطر تمام بین الاقوامی قوانین، معاہدوں، اداروں اور ضوابط کی پاسداری پر یقین رکھتا ہے۔امریکہ کے اس الزام کے جواب میں چین نے ایک طویل دستاویز میں دنیا میں امن کے قیام کے لیے امریکہ اور اپنی کاوشوں کا احاطہ کیا ہے۔ اس دستاویز کا مقصد امریکہ کی طرف سے پھیلائے غلط بیانیوں کا جواب دینا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے مطابق امریکہ جمہوریت، انسانی حقوق اور انسانیت کی تعظیم جیسے مفروضوں کی آڑ میں چین کو خطرناک ملک ثابت کرنے کے بیانیے کو ہوا دے رہا ہے۔ جنگ عظیم دوم کا خاتمہ امریکہ کی جانب سے جاپان کے دوشہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی پر یکے بعد دیگرے 6 اور 9 اگست کو ایٹمی حملوں سے ہوا۔ ساتھ ہی امریکہ نے صدیوں سے ٹوٹے پھوٹے اور جنگ سے پیکار یورپ کو معاشی استحکام کے لیے ایک کثیر رقم عنائت کی۔ ان دونوں واقعات نے جہاں امریکہ کو سپر پاور کے طور پر پہچان دی وہیں امریکی پشت پناہی، مداخلت اور جارحیت سے شروع ہونے والی جنگوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ چین کی طرف سے جاری جوابی دستاویز کے مطابق اپنی 240 برسوں سے زائد کی تاریخ میں امریکہ نے صرف 16 سال ایسے گزارے ہیں جن میں وہ کسی قسم کی جنگ کا حصہ نہیں بنا۔ وہ جنگیں جن کے عالمی مالیاتی نظام اور علاقائی امن پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ان میں ویتنام، افغانستان اور عراق کی جنگیں سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کا مشرق وسطیٰ کی خانہ جنگیوں میں مداخلت اور انسداد دہشت گردی کے نام پر چلائی گئی طویل المدتی جنگوں سے دنیا کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ۔ اب تک اس آپریشن میں نو لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ کئی لاکھ زخمی اور بے گھر کر دئیے گئے۔ مرنے والوں میں عام شہریوں کی تعداد 3 لاکھ 35 ہزار رہی۔ امریکہ کیوبا، عراق اور ایران پر معاشی بندشیں عائد کر کے ان ممالک کا استحصال کرتا آ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے بارہا انتباہ کے باوجود امریکہ نے ان بندشوں میں تخفیف نہیں کی بلکہ اسرائیل کی غزہ پر بے لگام جارحیت کے جواب میں بھی ہمیشہ چپ سادھے رکھی۔ اپنی اس ایک اینٹ کی مسجد کی خاطر امریکہ 1980 سے اب تک کل 17 بین الاقوامی اداروں اور معاہدوں سے لاتعلقی اور برات کا اعلان کر چکا ہے۔ بقول چین کے امریکہ سلیکٹو ملٹی لیٹرلزم کے نظریے پر کاربند ہے۔ یعنی امریکہ صرف ان معاہدوں، قوانین اور ممالک کو خاطر میں لاتا ہے جو اس کے مقاصد پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکہ نے مقامی قوانین بھی اس نو کے بنائے ہیں جن سے بین الاقوامی امور پر باآسانی اثر انداز ہوا جا سکے۔ ہوم لینڈ سکیورٹی کے نام پر کئی ممالک اور شخصیات امریکہ داخلے کے لیے ممنوع قرار دئے گئے۔ ان بدنام زمانہ قوانین میں سر فہرست انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاور ایکٹ، گلوبل میگنٹسکی ہیومن رائٹس اکاونٹبلٹی ایکٹ ، ٹوریسیلی ایکٹ اور ہیلمس برٹن ایکٹ شامل ہیں۔ آخر الذکر دونوں قوانین کیوبا پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ جن مقامات پر امریکہ قانونی طور پر مداخلت نہیں کر سکتا وہاں پابندیوں کو خارجہ پالیسی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔ ٹفٹس یونیورسٹی کے پروفیسر ڈینیل ڈریزنر کے مطابق پابندیاں کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے تباہ کاری کے سوا کچھ نہیں لاتیں۔ اجارہ داری کے اس فریم ورک میں امریکہ کیونکر چاہے گا کہ چین ایک مستحکم معاشی طاقت کے طور پر سامنے آئے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے چین کے خلاف جارحیت کے تمام راستے کھول رکھے ہیں۔ لیکن چین پر لگے الزامات ایسے نہیں جن پر آسانی سے یقین کر لیا جائے کیونکہ چین نے نہ صرف ہمیشہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں اور قوانین کی تعظیم اور پاسداری کی ہے بلکہ امن اور باہمی روابط سے جڑے پانچ اصولوں پر عمل کر کے دہشت گردی کی جنگ سے اٹی اس دنیا میں امن اور سلامتی کی شمع بھی جلائی ہے۔ اسی طرح ٹیکنالوجی میں مہارت رکھنے کے باوجود چین نے اسلحہ کی دوڑ میں کبھی حصہ نہیں لیا۔ جبکہ امریکہ انصاف کے بین الاقوامی اداروں کا رکن بننے سے آج تک انکاری ہے۔ اسی طرح جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ اور اسلحہ کی تجارت کو بند کرنے جیسے معاہدوں سے بھی امریکہ دست بردار رہا ہے۔ جبکہ چین نے امن کے ان راستوں پر اپنے قدم جما رکھے ہیں اور انکی پابندی پر یکسوئی کے ساتھ کاربند ہے۔ دراصل چین کا روڈ اینڈ بیلٹ پراجیکٹ امریکہ کی آنکھ چبھ رہاہے۔ یہ منصوبہ جہاں آدھی سے زیادہ دنیا کو باہم باندھ دے گا وہیں چین کے لیے معاشی شراکت داری کے نئے دروازے بھی کھولے گا۔ اگر امریکہ قرضوں کے ذریعے دنیا کو اپنی مٹھی میں قید کرتا ہے تو چین باہمی روابط اور اشتراک کے اصولوں پر بین الاقوامی روابط قائم کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ اسی لیے چین امریکہ کے الزامات کی زد میں ہے۔ نفسیات میں اس رویے کو پروجیکشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مریض اپنی کمی، کوتاہیوں اور منفی رویوں کو دوسروں پر ڈال کر خود اپنے تئیں بری الذمہ ہو جاتا ہے۔ امریکہ کا چین مخالف بیانیہ دراصل خوف کی وہ قسم ہے جس میں چین امریکہ کو متبادل سپر پاور کے طور پر نظر آرہا ہے۔