قوموں کا عروج ہو یا زوال یہ مہینوں برسوں نہیں دہائیوں اور صدیوں کے فیصلوں پر محیط بتدریج سلسلہ ہوتا ہے۔کوئی قوم یا ریاست کسی ایک کامیابی سے عروج پاتی ہے نہ ہی محض ایک ناکامی سے تباہ ہوتی ہے۔ یونان،روم، بغداد کی سلطنتوں کے عروج و زوال کی کہانی تاریخ کا سبق ہے۔برطانیہ نے لگ بھگ دو سو سال تجارتی راستوں اور سمندری گزرگاہوں کوکنٹرول کر کے اپنا تسلط برقرار رکھا۔ برطانیہ میدان میں جنگ عظیم تو جیت گیا مگر مذاکرات کی میز پر امریکہ سے پاور پالٹیکس کی بازی ہار گیا۔امریکہ نے تجارتی راستوں اور انڈسٹریل سبقت کی برطانوی حکمت عملی کو برقرار رکھتے ہوئے دنیا پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے ساتھ عالمی تجارت کو ڈالر سے جوڑ کر دنیا کواپنے زیر اثر کر لیا۔ جس پر یورپ نے مزاحمت کی تو انڈسٹریل سبقت میں یورپ کو حصے دار بنا لیا۔ مگر سوویت یونین کے اپنا الگ تشخص برقرار رکھنے اور امریکی سپر میسی کو تسلیم نہ کرنے نے سردجنگ کو ہوا دی۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادی بننے کو ترجیح دی اور معاملہ سوویت یونین کی افغانستان کی دراندازی تک پہنچ گیا۔سوویت یونین کے پھیلائو کو روکنے کی خواہش نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو خطہ کی بڑی آبادی چین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر مجبور کیا اور پاکستان نے امریکہ اور چین کے درمیان پل کا کردار ادا کیا۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاوربنا۔چین سرمایہ دارانہ شراکت داری میں حصہ دار بن گیا اور امریکی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر دنیا کی مضبوط معاشی قوت بن کر ابھرا ۔امریکہ نے ہائی ٹیک ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں اپنی قیادت میں یورپ کی بالادستی تو قبول کر لی مگر چین کو حصہ دار بنانے سے انکار کیا جس سے امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی مقابلہ تصادم میں تبدیل ہو گیا اور چین اور روس قریب ہونا شروع ہوئے۔ افغانستان میں بیس سالہ جدو جہد کے نتیجہ میں طالبان کی فتح اور وہاں سے امریکہ و اتحادی فوجوں کے ذلت آمیز انخلا کو اہل ایمان حق کی باطل پر فتح قرار دے رہے ہیں مگر یہ فتح انہی کو دکھائی دے سکتی ہے جن کے سینے ایمان اور یقین کی بصیرت سے منور ہوں۔ بقول اقبال جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے،اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے دماغ تو اعتقاد کی ضد ہے، اس لئے عقلیت پسند افغانستان میں امریکہ کی شکست کو عقل کے پیمانوں پر تول رہے ہیں۔عقلیت پسند اور اہل ایمان اس حد تک تو متفق ہیںکہ طالبان سے شکست کے بعد دنیا میں طاقت کے مراکز تبدیل ہو رہے ہیں۔ جس کا ثبوت امریکہ کے مضبوط ترین اتحادی برطانیہ کے وزیر دفاع بین والیس کا بیان ہے کہ ’’امریکہ اب دنیا کی واحد سپر پارو نہیں رہا‘‘۔ برطانوی وزیر دفاع کے اس بیان کی وجہ امریکہ سے برطانیہ کی مخاصمت ہے نہ ہی غیر متزلزل یقین‘بلکہ عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔ امریکہ سے شکست خوردہ روس اورنئی ابھرتی معاشی طاقت چین عالمی برادری کو ایک ایسے نظام کی پیش کش کر رہے ہیں جس میں کسی ایک طاقت کی بالادستی نہ ہو گی بلکہ اس نظام میں عالمی تعاون باہمی ترقی و خوشحالی سے مشروط ہو گا۔ آج چین کا ون بیلٹ ون روڈ انیشیٹوخطہ کے ممالک کو باہمی تجارت کے ذریعے مشترکہ ترقی کی دعوت دے رہا ہے۔ گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے دوسری طرف روس گزشتہ تین سو سال سے یورپ اور ایشیا کو باہمی ترقی سے جوڑنے کی کوششوں میں مصروف تھا مگر یورپ نے امریکہ کی مداخلت کے باعث روس کا دست تعاون ٹھکرا دیا اور نیٹو کی صورت میں دنیا کے وسائل پر قبضے میں امریکہ کے شراکت دار بن گیا۔ امریکہ کی واحد سپر پاور بننے کے بعد جہاں امریکہ نے تیسری دنیا بالخصوص اسلامی دنیا پر تباہی مسلط کی وہاں یورپ کے ساتھ بھی اس کا رویہ تحکمانہ ہو گیا جس نے یورپ کے امریکی انحصار پر خوف کو جنم دیا۔امریکہ چین کی 1979ء سے شروع ہونے والی سرمایہ دارانہ شراکت داری نے چین کو امریکہ کے علاوہ یورپ کے قریب ہونے کا موقع بھی فراہم کیا اب چین کے مشترکہ ترقی کی دعوت اور امریکہ کے جار حانہ طرز عمل نے یورپ کو چین اور روس کی طرف دیکھنے پر مجبور کردیا ہے۔ قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم بے سود نہیں روس کی یہ گرمئیٔ گفتار یورپ بھی آج یہ محسوس کر رہا ہے کہ ملٹی پولر دنیا امریکہ کی بالا دستی سے بہتر ہے۔امریکہ کی افغانستان میں شکست نے اس سوچ کو مزید تقویت دی ہے۔ یورپ آج چین اور روس کے ساتھ تجارت بڑھانے پر آمادہ ہے جبکہ یورپی یونین عالمی تجارت پر ڈالر کی حاکمیت کو ختم کر کے یورو کو تجارتی کرنسی بنانے کی خواہاں ۔ظاہر ہے یہ صورتحال امریکہ کے لئے ہرگز قبول نہ ہو گی امریکہ ڈالر کا تسلط برقرار رکھنے کے لئے عالمی تجارتی پابندیوں اور اپنی ہائی ٹیک ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی سبقت کو بطور ہتھیار استعمال کرسکتا ہے یہ اسی سوچ کا شاخسانہ ہے کہ یورپین یونین امریکہ پر دفاعی انحصار کم کر کے یونین کی اپنی فوج بنانے کا عندیہ دے چکی ہے، اس پس منظر میں دیکھا جائے تو بائیڈن کے افغانستان میںمزید ڈالر نہ جھونکنے کے فیصلے کو سمجھنا آسان ہے۔ نئے عالمی منظر نامے میں جہاں دنیا کے طاقت کے مراکز تبدیل ہو رہے ہیں وہاں امریکہ اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے اپنی حکمت عملی مرتب کر رہا ہے عقلیت پسندوں کا ایک گروہ افغانستان سے امریکی انخلا کو دوسری نظر سے دیکھ رہا ہے۔ امریکی دانشور افغانستان سے امریکی انخلا کو شکست کے بجائے دنیا پر امریکی حاکمیت کو برقرار رکھنے کے لئے امریکہ کی دوسرے مرحلے کی حکمت عملی برقرار دے رہے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ دنیا کی طاقت کے مراکز تبدیل ہونے اور ملٹی پولر دنیا کی صورت میں جب دنیا کی نئی ابھرنے والی طاقت زمینی وسائل کے نیم جان جسم کو نوچنا شروع کر دیں گی تو ان حالات میں امریکہ کو اپنی سپر میسی برقرار رکھنے کے لئے ’’کچھ زیادہ ‘‘کرنے کی ضرورت ہوگی۔ امریکہ اور برطانیہ میں حالیہ سرد جنگ اسی ’’کچھ زیادہ‘‘ کا شاخسانہ ہے۔ امریکہ اپنا تسلط زمین کے بعد سپیس اور دیگر سیاروں کے ذخائرتک بڑھانے کا سوچ رہا ہے اور برطانیہ اور یورپ کو شراکت دار بنانے پر تیار نہیں۔ رواں برس ہی امریکی عہدیدار نے سائبر سپر میسی اور چاند اور مریخ کی معدنیات پر حق جتانے پر برطانیہ کو متنبہ کیا تھا۔ امریکی دانشور بائیڈن کی حکمت عملی کو زمین کے بعد خلا اور دیگر سیاروں پر امریکی تسلط کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔روس چین اور یورپ امریکی بالادستی کے بجائے باہمی تعاون اور مشترکہ تجارت کے ذریعے ملٹی پولر دنیا کی جانب بڑھ رہے ہیں جبکہ ہم یقین اور ایمان کے زور پر امریکہ کو شکست دینے پر نازاں ہیں۔امریکی کی افغانستان میں شکست سے امریکہ کی واحد سپر پاور کی حیثیت ختم ہو گئی یا نہیں اس کا فیصلہ وقت نے کرنا ہے کیونکہ قوموں کے عروج و زوال کے فیصلے مہینوں برسوں نہیں دھائیوں اور صدیوں پر محیط ہوتے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ ر عونت آمیز حاکمیت کا انجام ذلت و شکست ہوتا ہے۔ ضربت پیہم سے ہو جاتا ہے آخر پاش پاش حاکمیت کا بت سنگیں دل و آئینہ رو