نومبر 2002 میں جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں اسٹریٹ نیٹ کے نام سے ریڑھی بانوں کے لیے ایک نئی عالمی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ اس اساس کے پیچھے دنیا کے مختلف ممالک میں ریڑھی بانوں کی مقامی تنظیموں کے درمیان مسلسل تعاون اور اشتراک پر مبنی کئی سالوں کی جدوجہد تھی۔ دنیا بھر کے ریڑھی بانوں کی مشترکہ تکالیف میں پولیس کی ہراسگی، آئے دن کی بیدخلیاں اور حکومتوں کی طرف سے ان کی حیثیت کو تسلیم نہ کرنا شامل ہیں۔ اسٹریٹ نیٹ کے بانیان نے ریڑھی بانوں کے روزگار کے سلسلے کے اس عدم تحفظ کے تسلسل کو کم کرنے کو اپنے مشن کا حصہ بنایا۔ اس عالمی تنظیم کا مقصد اجتماعی آواز سے محروم، مظلوم اور غیر منظم ریڑھی بانوں کو متحد کر کے ان کی آواز کو اپنے سماجی اور معاشی حقوق کے لیے توانا کرنا ہے، تاکہ وہ اپنے ملکوں میں جائز اور قانونی حیثیت حاصل کرسکے۔ عالمی سطح کی اس جدوجہد نے مقامی ریڑھی بانوں کی تنظیموں کی کوششوں کو مہمیز عطا کی۔ بتدریج اسٹریٹ نیٹ ترقی پذیر ممالک کی مقامی ریڑھی بان انجمنوں کے عالمی اتحاد کی نمائندہ تنظیم کے طور پر ابھری۔ دو دیائیوں میں اسٹریٹ نیٹ سے 55 ممالک سے تعلق رکھنے والی ریڑھی بانوں کی تنظیموں نے الحاق کیا ہے، جن کے ممبر ریڑھی بانوں کی تعداد چھ لاکھ سے زائد ہے۔ اسٹریٹ نیٹ نے تواتر سے ریڑھی بانوں کے لیے تربیتی ورکشاپس، کانفرنسوں، کانگریسوں، لٹریچر اور حکومتوں کے ساتھ ریڑھی بانی کے لیے سازگار ماحول اور قوانین پر کام کیا ہے۔ اس تنظیم کی طرف سے دنیا بھر میں 14 نومبر کو ریڑھی بانوں کے دنوں کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اب اچبنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان جیسے بڑی آبادی والے ملک، جہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی چوتھی سب زیادہ ریڑھی بانوں کی آبادی رہتی ہے، اس ملک سے کوئی ایک بھی ریڑھی بانوں کی تنظیم کسی عالمی یا علاقائی ریڑھی بانوں کی تنظیم کی ممبر نہیں ہے۔ اس نمائندگی کے فقدان کی اہم وجہ اس بڑی ریڑھی بانوں کی کمیونٹی کا نہ مقامی یا صوبائی یا وفاقی سطح پرمنظم ہونا ہے۔ اب کسی بھی پیشے سے وابستہ افراد کی تعداد چاہے کتنی بڑی ہو، اگر تنطیمی طور پر غیر منظم ہیں تو ارباب اختیار میں نہ تو ان کی شنوائی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ معاشرے کے بڑے حصے کو اپنی سماجی اور معاشی اہمیت کے بارے میں باضابطہ یقین دلاسکتے ہیں۔ ہمارے ملک کے ریڑھی بانوں کا عین یہی حال ہے۔ پاکستان کے شہری عوامی جگہوں میں بڑی تعداد میں ان کی موجودگی معاشی منطق کا جبر ہے، جسے انتظامی ایکشن سے نہ ختم کیا جاسکا ہے اور نہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ ایک عجیب مخمصے میں دونوں حکمران اشرافیہ اور ریڑھی بان پھنسے ہوئے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ جو دونوں اطراف میں فاصلہ ہے اس کا ایک اثر تو ملکی شہروں میں نہ ختم ہونے والی بے ہنگم ریڑھی بانی ہے اور دوسرا شاندار نتیجہ ریڑھی بانوں سے مستقل بنیادوں پر غیرقانونی رقم اینٹھنے والے سرکاری اور غیر سرکاری استحصالی عناصر کی موجودگی ہے۔ یہ جو ہمیں دیگر ترقی پذیر ممالک میں ریڑھی بانوں کے حالات میں کچھ بہتری نظر آتی ہے، تو اس کی بڑی وجہ سول سوسائٹی کا ریڑھی بانوں اور سرکار کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا ہے، کیونکہ ریڑھی بان سرکاری طورطریقوں سے اپنی بات اوپر تک پہنچانے سے ذرا نابلد ہوتے ہیں اور سرکار کی ترجیحات میں ریڑھی بانوں کے مسائل کی سمجھ تھوڑی کم ہوتی ہے۔ اس ماحول میں اسلام آباد میں سرکار کے وینڈنگ لائسنس سے مستفید کوئی دو سو کے قریب ریڑھی بانوں کا انجمنِ ریڑھی بان کے نام سے نمائندہ تنظیم کا قیام ایک نئی شروعات نظر آتی ہے۔ اور اس تنطیم سازی میں ایک اہم کردار پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولیپمنٹ اکنامکس (پائڈ) نام کے سرکاری معاشی تھنک ٹینک کا ہے، جس نے سرکاری ریڑھی بان پروگرام کے ڈیزائن اور عملدرآمدگی میں کلیدی رول نبھایا تھا۔ پائڈ کی طرف سے راقم نے اس پروگرام میں فوکل پرسن کے طور پر کام کیا تھا۔ اسی تجربے اور متعلقہ تحقیق کی بنیاد پر راقم نے پروگرام میں شریک ریڑھی بانوں کو انجمن کے قیام میں تکنیکی اعانت فراہم کی۔ یہ شاید پاکستان میں غریب ریڑھی بانوں کے ریگولیٹری ماحول کو بہتر بنانے کا مشن لیے وہ چیدہ ادارہ ہے، جو کسی ڈونر کی امداد سے نہیں بلکہ ریڑھی بانوں کی ممبرشپ فیس کے مد میں جمع ہونے والے پیسوں سے چل رہا ہے۔ انجمن کے معاملات چلانے کے لیے ایک ایگزیکٹو کمیٹی اور جنرل باڈی تشکیل دے دی گئی ہے۔ حال ہی میں منعقدہ جنرل باڈی کے اجلاس میں انجمن نے اپنا آئین منظور کیا ہے، جس کی اساس اندرونی جمہوریت اور شفافیت پر رکھی گئی ہے۔ اگلے مرحلے میں انجمن نے متفقہ مطالبات کی بنیاد پر چارٹر آف ڈیمانڈ تیارکیا، جوایگزیکٹو کمیٹی متعلقہ حکام کو پیش کر رہی ہے۔ اب یہ کاوشیں اس پس منظر میں قابل تحسین ہے کہ جب ہمیںیہ علم ہوتا ہے کہ انجمن میں دو تہائی ممبروں کی تعلیم میٹرک سے کم ہے اورپرانا استحصالی نظام ریڑھی بانوں کی نئی حاصل شدہ آزادی سے قطعی خوش نہیں ہے اور ان کی راہ میں ہر ممکن روڑے اٹکانے کو کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ مگر ان سے ملتی جلتی مشکلات کا سامنا ہر اس ملک کے ریڑھی بانوں اور ان کے داعیوں نے کیا، جنہوں نے ریڑھی بانوں کی قانونی حیثیت کو بہتر کرنے اور ان کو کوئی ریلیف پہنچانے کی کوشش کی۔ لیکن انجمن کے ممبران کے لیے اہم یہ ہے کہ ا نہیں سرکار تک ابھی بات پہنچانے کے لیے ایک باضابطہ تنظیمی طریقہ کار مل گیا ہے۔ اب چاہے اس میں وقت لگے، انجمن ریڑھی بانوں کے مسائل کے حل کے لیے اپنی منظم کاوشوں میں جتی رہے گی۔ اب ملکی قوانین میں ریڑھی بانوں کی حیثیت کچھ بھی ہو، ایک مہذب اور جمہوری معاشرے میں نچلے طبقے کے لیے بھی اپنی شنوائی کے منظم راستے موجود ہیں۔ کسی بھی پائیدار تبدیلی کے لیے سول سوسائٹی اور نچلے طبقے کے درمیان بامقصد اور مخلص پارٹنرشپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ایسی پارٹنرشپ قائم ہوجائے اور چل پڑے، تو سیاسی کردار اس جدوجہد میں وقت آنے پر مختلف النوع کی شمولیت اختیار کرتے ہیں۔