آٹھ دس ہفتے سے حکومتی وزیر مشیر اور حکومت نواز مبصر و تجزیہ کار یہ کہہ کہہ کر قوم کی ایمان افروزی کر رہے تھے کہ ہماری کامیاب سفارت کاری کے نتیجے میں ساری دنیا ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئی ہے۔ مسئلہ کشمیر عالمی ایجنڈے پر سرفہرست آ گیا ہے اور بھارت کو تنہا کر دیا گیا ہے لیکن امریکہ اور یورپ سے تو کچھ اور ہی خبریں آئیں۔ حالات کی تصویر جو دکھائی گئی اصل میں کچھ دوسری ہی نکلی۔ اوروں کو توچھوڑیے‘ خود وزیر اعظم نے امریکہ میں جو خطاب فرمایا وہ یہ تھا کہ کشمیر پر عالمی برادری کا ردعمل مایوس کن ہے۔ پہلی نظر میں تو یوں لگا جیسے وہ یہ کہہ رہے ہوں کہ ساری عالمی برادری کا ہمارے پیچھے کھڑا ہو جانا مایوس کن ہے لیکن دوسری نظر میں پڑھنے پر اندازہ ہوا کہ وہ پاکستان کی عالمی تنہائی کا عنوان باندھ رہے ہیں۔ خدا معلوم‘ ہماری کامیاب سفارت کاری کو کیا ہوا‘ کدھر چلی گئی؟ ٭٭٭٭٭ اس سے کچھ دن پہلے ایک سفارتی معجزہ ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشن میں پاکستان نے کشمیر پر قرار داد لانی تھی۔ کسی اور نے نہیں‘ خود عزت مآب وزیر اعظم نے اطلاع دی کہ قرار داد کی حمایت کا یقین دلانے والے ملکوں کی تعداد 58ہے۔ یہ سفارتی تاریخ کا اور اسی نوعیت کا اب تک کا واحد معجزہ تھا‘ سفارت کاری کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ یہ عدیم النظیرمعجزہ یوں تھا کہ کمشن کے ارکان کی تعداد 47تھی اور ان 47میں سے 58پاکستان کے حامی ہو گئے۔ باقی کتنے بچے؟ جی؟ کوئی معجزہ ! پھر 19تاریخ آ گئی اور پاکستان قرار داد پیش نہ کر سکا۔ یہ آخری تاریخ تھی۔ بتایا گیا کہ معجزے نے یو ٹرین لے لیا ہے۔ پاکستان کو مطلوبہ حامیوں کی کم از کم تعداد بھی دستیاب نہ ہو سکی جو 15تھی۔ اس عظیم الشان معجزاتی سفارت کاری کی وضاحت وزیر اعظم کریں گے یا وزیر خارجہ؟ محب الوطن تجزیہ نگاروں کی صفوں میں قدرے خاموشی ہے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے وہاں القاعدہ کی ذمہ داری بھی پاکستانی ریاست پر ڈال دی۔ بیان خطرناک تھا۔ ٹی وی پر بیٹھے کم از کم تین محب وطن تجزیہ نگاروں نے اپنا تجزیہ یوں پیش کیا کہ وزیر اعظم کی زبان پھسل گئی تھی۔ زبان کی پھسلن یعنی بھول چوک اور پھر بھول چوک کا کیا ہے‘ انسان تو پتلا ہی بھول چوک کا ہے۔ ان کی بھول چوک کے تو کیا ہی کہنے‘ سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔ ایک سال کے دوران وزیر اعظم سو سے زیادہ بار زبان کی پھسلن کا شکار ہوئے۔ ان کے ڈیڑھ درجن وزیر بھی (کم از کم) اسی مرض کا شکار ہیں ان کی پھسلن بھی ملا لیں تو شاید ہزار تک گنتی جا پہنچے(خدا جھوٹ نہ بلوائے کہ تکیہ کلام استعمال کرنے کی ضرورت نہیں) تحریک انصاف کا عرفی نام عاشق تحریک پھسلن بھی رکھا جا سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ فردوس عاشق اعوان نے فرما دیا کہ زلزلہ یوں آیا کہ تبدیلی کو زمین نے بھی قبول نہیں کیا۔ اس پر بہت لے دے ہوئی‘ خود شیریں مزاری بھی شرمندہ ہوئیں‘ بیگم صاحبہ نے پہلے وضاحت کی کہ میرے بیان کا سیاق و سباق کچھ اور تھا(پھسلن کے بعد تحریک انصاف کا دوسرا بڑا ٹریڈ مارک یہی سیاق و سباق نہ ہونے کا شکوہ ہے۔ وضاحت سے کام نہ چلا تو وزیرہ موصوف نے باقاعدہ معذرت کر لی۔ سچ پوچھئے تو وضاحت‘ ندامت‘ معذرت‘ کسی بھی شے کی ضرورت نہیں تھی۔ بیگم صاحبہ کی زبان سے سچ بھی تو پھسلا ۔ یہ کہ تبدیلی کو زمین بھی قبول نہیں کر رہی۔ یوں بھی کہہ سکتی تھیں کہ سرزمین پاکستان نے تبدیلی مسترد کر دی۔ ٭٭٭٭٭ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ خیال انہی کا نہیں‘ کئی دوسروں کا بھی ہے اور صرف امریکہ نہیں‘ بھارت کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ دونوں ملکوں کی پاکستان دشمنی غیر متنازعہ لیکن خوش قسمتی یا تقریباً خوش قسمتی یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کے خاکم بدہن‘ خاتمے سے ان ملکوں کو فائدہ نہیں‘ نقصان ہو گا۔ اس کی وجوہ تفصیل مانگتی ہیں‘ شاید پھر کبھی سہی۔ دونوں ملک پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ پاکستان سے اپنے مقاصد 1958ء سے پورے کر رہا ہے اور ابھی اس نے مزید کام لینا ہے۔ فی الحال یہ البتہ لگ رہا ہے‘ یقینی حد سے کچھ ہی کم کہ دونوں ملک پاکستان کو آزاد کشمیر اور گلگت سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ آج نہیں تو کل یہ سچائی کھل کر سامنے آ جائے گی۔ آزاد کشمیر پر بھارتی دھمکیاں اور ٹرمپ کا بار بار کا ثالثی کا اعلان بے وجہ نہیں۔ ہمیں ابھی سے پیش بندی کرنی چاہیے کہ نہیں؟ اور دستگیری کے لئے کسے آواز دیں؟ اسلامی کانفرنس کو ؟(گلگت کو الگ کرنے کا منصوبہ بہت پرانا ہے۔ ضیاء الحق کے دورکا‘بیچ میں ملتوی رہا) ٭٭٭٭٭ 25ستمبر کے کالم میں کمپوزنگ کی غلطی سے حضرت الیسعیع کا نام غلط چھپ گیا تھا۔