سوویت یونین کی تحلیل نے امریکا کو معلوم تاریخ کی سب سے بڑی سپر پاور بنادیا۔ اس پر عالمی سطح پر استحکام برقرار رکھنے کی غیر معمولی ذمہ داری آ پڑی۔ امریکی قیادت کے لیے بہت سے معاملات میں اپنا ریکارڈ بہتر بنانے کا یہ بہت اچھا موقع تھا۔ یورپ کچھ خاص مداخلت کے قابل نہ تھا۔ ایسے میں اگر امریکی قیادت کچھ اچھا کرنا چاہتی تو کسی بھی طرف سے مخالفت یا مزاحمت کا خطرہ نہ تھا۔ اگر کوئی ملک برابری کا ہوتا تو کسی بھی معاملے میں رکاوٹ کھڑی کرتا۔ یورپ مجموعی طور پر امریکا کا حلیف رہا ہے اور بیشتر معاملات میں اس کی پالیسیوں کو قبول کرتا رہا ہے۔ امریکی قیادت اگر چاہتی تو کئی خِطوں میں حقیقی استحکام کی راہ ہموار کر سکتی تھی اور وہ خطے مستحکم ہو بھی جاتے۔سوویت یونین کی تحلیل پر اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے قومی سلامتی کے مشیروں اور معاونین سے مشاورت کی۔ سب اِس بات سے بہت خوش تھے کہ روس سمیت اب کوئی بھی ملک امریکا کو آگے بڑھنے سے روکنے کی پوزیشن میں نہیں۔ سب نے اِس نکتے پر زور دیا کہ امریکا کو اپنی عسکری قوت کا بھرپور مظاہرہ کرکے پوری دنیا پر یہ واضح کردینا چاہیے کہ اب وہ اپنی مرضی کے مطابق دنیا کو چلائے گا۔ امریکی ایوانِ صدر چاہتا تھا کہ ایسی فتوحات تیزی سے یقینی بنائی جائیں جن کے ذریعے دنیا میں چند نمایاں تبدیلیاں رونما ہوں۔امریکی قیادت کا تاج ان لوگوں کے سروں پر سجا ہوا تھا جنہیں دنیا (neocons)کے نام سے جانتی ہے۔ یہ نئے دور کے رجعت پسند تھے اور امریکا کو مذہبی بنیاد پر ایسے مقام تک لے جانا چاہتے تھے جہاں کوئی بھی ملک اس کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو۔امریکی قومی سلامتی کونسل کی دستاویزات میں یہ بیان بھی ملتا ہے کہ امریکا کو اب دنیا بھر میں کمزور دشمن تلاش کرنے ہیں تاکہ ان کے خلاف تیزی سے فتح حاصل کی جاسکے۔ قومی سلامتی کے مشیروں نے اِس نکتے پر زور دیا کہ امریکا کو اپنے تمام کمزور دشمنوں پر محض فتح حاصل نہیں کرنی بلکہ اِس تیزی سے انہیں ہرانا ہے کہ وہ خود بھی حیران رہ جائیں۔ دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالنے کی یہی ایک صورت تھی۔ امریکا نے جن دشمنوں کو کمزور قرار دیا ان میں پاناما سر فہرست تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ پاناما کے خلاف کوئی بھی کارروائی کس بنیاد پر کی جائے؟ کوئی نہ کوئی بہانہ تو درکار تھا۔ کوئی کتنا ہی طاقت ور اور ظالم ہو، اپنے جرم کا کوئی نہ کوئی جواز تو گھڑتا ہی ہے۔ پاناما کے بہت سے لوگوں کا تعلق ڈرگ مافیا سے ہے۔ یہی کافی تھا۔ امریکی قیادت نے ایک بڑے ڈرگ ڈیلر کو گرفتار کرنے کے نام پر پاناما کے خلاف کارروائی کی۔ امریکا کے جنگی جہازوں نے پاناما کی بندر گاہوں پر لنگر اندازی کی تو امریکی فوجیوں کو بڑے پیمانے پر دخل اندازی کا لائسنس مل گیا۔امریکا چاہتا تھا کہ پاناما نہر مکمل طور پر اس کے کنٹرول میں ہو اور اِس چھوٹے سے ملک میں اس کے فوجی اڈوں کی تعداد بڑھ جائے۔ یہ سب کرنے کے لیے کسی نام نہاد کارروائی کا سہارا تو لینا ہی تھا۔ پاناما پر حملے سے چند لمحات قبل ہی وہاں ایک امریکی فضائی اڈے پر نئے صدر کی حلف برداری ہوئی۔ امریکا نے اپنے جس پِٹھو کو پاناما کے صدر کے منصب پر بٹھایا اس کا نام گلِرمو اینڈارا تھا۔ وہ ایک بینک کا مالک تھا اور اس کا بنیادی دھندا کالے دھن کو سفید کرنا تھا۔ایسا نہیں ہے کہ پاناما کا بینک ہی کالے دھن کو سفید کرنے کا دھندا چلا تا تھا۔ امریکا کے تمام بڑے تجارتی بینکوں نے پاناما میں اپنی شاخیں کھول رکھی تھیں۔ کیوں نہ کھولتے؟ انہیں بھی تو کالے دھن میں اپنا حصہ درکار تھاامریکہ نے بیسویں صدی کے دوران کئی بار یہ نعرہ لگایا کہ وہ کھلے بازار کی معیشت پر یقین رکھتا ہے۔پاناما میں امریکا نے ڈرگ ڈیلر کو گرفتار کرنے کے نام پر جو کارروائی کی اور وہاں اپنے قدم جمانے کی کوشش کی اس کے نتیجے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے واقعات رونما ہوئے۔ پاناما میں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ امریکی فوجی کارروائی کے نتیجے میں پاناما میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ اِن میں اکثریت ان شہریوں کی تھی جن کا نہ تو ڈرگ مافیا سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی وہ کالے دھن کو سفید کرنے کے دھندے سے وابستہ تھے۔ پاناما اور کولون خاصے گنجان آباد شہر ہیں۔ اِن دونوں شہروں کے متعدد علاقوں میں امریکی فوج نے بلاجواز کارروائیاں کیں جن کے نتیجے میں بے قصور شہری ہلاک ہوئے۔امریکا کی اولین ترجیح یہ تھی کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی تیل ہے وہاں اپنی طاقت کاسکہ بٹھایا جائے۔ سعودی عرب اور خِطے میں تیل کی دولت سے مالا مال دیگر ممالک تو پہلے ہی امریکا کے مطیع و فرماں بردار ہیں۔ لازم ہوا کہ دیگر خِطوں میں بھی تیل کے ذخائر والے علاقوں کو کنٹرول میں لیا جائے۔ اِس سے بہت پہلے امریکی محکمہ داخلہ نے وسط ایشیا میں تیل کے وسیع ذخائر کے حوالے سے تبصرہ کیا تھا۔ تیل کے ذخائر بہت بڑی طاقت ہیں۔امریکا چونکہ مشرقِ وسطی سے تیل کی ترسیل کے میکینزم پر بھی متصرف ہے ،اس لیے ایشیا اور یورپ دونوں ہی امریکا کے دباو میں رہتے ہیں۔ مشرق وسطی میں تیل کے ذخائر کو امریکا اپنی جاگیر سمجھتا ہے اور یہ بات برملا کہتا ہے کہ تیل کے اِن ذخائر میں ان کا بھی حصہ ہے۔سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے یہ الفاظ بھی ریکارڈ پر ہیں کہ تیل بہت اہم چیز ہے اور اس انتہائی اہم چیز کو عربوں کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑا جاسکتا۔ہم تمہاری زمین میں چھپے ہوئے امریکی مفادات تلاش کر رہے ہیں۔ امریکا پوری دنیا پر بلا شرکتِ غیرے حکومت کرنا چاہتا تھا اور اب بھی اس کی یہ خواہش پوری آب و تاب کے ساتھ برقرار ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی ملک نے اپنی غیر معمولی طاقت کو آلہ کار بناکر پوری دنیا کو مٹھی میں لینا چاہا، صرف خرابیاں ابھر کر سامنے آئیں۔ ایسا کرنے کے نتائج بھی سب جانتے تھے مگر اِس کے باوجود اِس خواہش کو عملی شکل دینے سے کبھی گریز نہیں کیا گیا۔ اِنسانی فطرت کا یہی پہلو سب سے بھیانک ہے۔