جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہونگے تو امریکہ میں ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پاک امریکہ تجدید تعلقات کے اجلاس کر چکے ہونگے اور امید ہے اس بارے میں ساری اطلاعات ایک آدھ دن میں مل جائیں گی کہ تجدید تعلقات کی کوششیں کس سمت جا رہی ہیں۔لیکن تجدید تعلقات کیوں؟امریکہ کے ایک فون پر بچھ جانے والاجنرل مشرف کا پاکستان،سرد جنگ میں امریکہ کو روس کے خلاف فتح دلانے والا جنرل ضیاء کا پاکستان اور اس سے پہلے جنرل ایوب کا پاکستان جسےmost allied of the ally کہا جاتا تھا۔آخر ایسا کیا ہوا کہ تجدید تعلقات کی ضرورت پڑ گئی۔ مجھے پنجاب پولیس یاد آ رہی ہے جو ہاتھ میں پکڑی ہوئی چرس یا افیم کی پڑیا تلاشی کے دوران جس شخص کی جامہ تلاشی لی جارہی ہوتی ہے اسکی جیب میں ڈال کر کیس بنا دیتی ہے۔بندہ پریشان ہی رہتا ہے کہ اس نے زندگی میں کبھی ان چیزوں کی شکل نہیں دیکھی یہ کیسے اسکی جیب سے برآمد ہو گئی۔ امریکی سیکرٹری دفاع چک ہیگل2013 ء میں جب یہ کہتا ہے کہ بھارت افغانستان میں پاکستان کے لئے مسائل پیدا کرنے کے لئے مالی معاونت کر رہا ہے تو کیا یہ معاونت وہ افغان حکومت کو دے رہا تھا، یقیناً نہیں۔ کلبھوشن یادیو کے پکڑے جانے کے بعد اسکا اصل مقصد واضح ہو گیا۔ پاکستان جب یہ بات کرتا ہے تو امریکہ اس پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہوتا کیونکہ اسکی محبت بھارت کے لئے نئی نئی جاگی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے اور بھی بہت دلچسپ باتیں ہوتی رہی ہیں جس میں ہیلری کلنٹن کے دورہ پاکستان کے موقع پر ایک خاتون نے امریکہ کو ایک ایسی ساس سے تشبیہہ دی جو کبھی بھی بہو کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوتی، اس بارے میں ہیلری نے بھی فراخدلی سے اعتراف کیا کہ ساس ہونے کے ناطے وہ اس موازنے کو بہت اچھی طرح سمجھتی ہیں۔پھر ہیلری کلنٹن نے سینیٹ کمیٹی کے سامنے وہ سارے سچ بولے جو 1979ء میںافغانستان میں روسی مداخلت سے شروع ہو کر امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ تک واقع ہوئے۔اس بات کے اقرار کے باوجود کہ امریکہ نے روس کے خلاف سرد جنگ جیتنے کے بعد پاکستان کو مسلح اور منظم آزادی کی جنگ لڑنے والے مجاہدین کے ساتھ تن تنہا چھوڑ دیا اور نائن الیون تک مڑ کر خبر نہ لی بلکہ پاکستان کو مختلف اوقات میں حیلے بہانوں سے پابندیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔اس کے بعد ہم امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بن گئے اور ہن برسنے لگا۔امریکہ بہادر جب افغانستان میں دہشت گردی کی جنگ کی آڑ میں عراق میں گھس گیا جو کہ اسکا اصل ٹارگٹ تھا پھر پاکستان کی کوششوں میں اسے خرابی نظر آنا شروع ہو گئی اور کیفیت اس جادو گر کی بیوی جیسی ہو گئی جسے پورا علاقہ کمال کا جادوگر تسلیم کرتا تھا لیکن بیوی اسکی خامیاں نکالتی رہتی تھی۔ ایک دن اس نے اپنے استاد سے اڑنے کا فن سیکھا اور سیدھا گھر کے اوپر پرواز کرنے لگا۔جب وہ لینڈ کر کے گھر کے دروازے پر پہنچا تو بیوی نے آڑے ہاتھوں لیا۔کہا کہ بڑے جادوگر بنے پھرتے ہو،اصل جادوگر تو وہ ہے جو ابھی یہاں ہوا میں اڑ رہا تھا۔شوہر نے جب یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ اڑنے والا جادوگر میں ہی ہوں ، تو بیوی نے فرمایا اوہ اچھا اسی لئے ٹیڑھا ٹیڑھا اڑ رہے تھے۔یہ جو ٹیڑھا ٹیڑھا اڑنے کا طعنہ ہے وہ پاکستان کے حصے میں ڈو مور کے انگریزی ترجمے کی صورت میں آیا۔ایک وقت میں جنرل مشرف اور انکی حکومت کو ڈبل گیم کا طعنہ بھی دیا گیا اور اسکی وجہ جنرل مشرف کی یہ تجویز تھی کہ صرف جنگ اس مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ ہمیں طالبان جو کہ ایک بڑے سٹیک ہولڈر ہیں انہیں بھی پاور شئیرنگ کا حصہ بنانا چاہئے۔2006 ء میں جس تجویز کو ڈبل گیم کہا گیا اب امریکہ اسی تجویز کے ساتھ پاکستان کی جان کو آیا ہوا ہے کہ افغانستان کے اندر اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے تا کہ اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل تلاش کیا جا سکے۔اور اسکے بعد امریکہ اپنی فوجیں لے کر یہاں سے واپس چلا جائے۔اس تجویز کے پیچھے غلط فہمی یہ ہے کہ پاکستان اب بھی افغانی طالبان کے اتنا ہی قریب ہے جتنا روس کے خلاف جنگ اور اسکے بعد تھا۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے اندر ہونے والے تمام دہشت گردی کے واقعات کے تانے بانے افغانستان کے اندر جا کر ملتے ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ہمارا اثر و رسوخ وہ نہیں ہے جو امریکہ ہمیں باور کراتا ہے۔ دوسری اہم بات وہاں پر پشتون آبادی کی اکثریت کو امریکہ نے اپنی مرضی کے حکمران لانے اور انہیں زیادہ سے زیادہ پاور شئیرنگ میں حصہ دلانے کے لئے اقلیت میں تبدیل کر دیا ہے۔ پشتون آبادی کی صحیح تعداد کا تعین اور طالبان کو حصہ بقدر جثہ کے فارمولے پرپاور شیئرنگ کرائے بغیر مسئلہ حل نہی ہو گا بلکہ بگڑے گا اور دو تین سال بعد شاید امریکہ یہاں نہ ہو لیکن اسکے کنٹریکٹر خانہ جنگی کی آڑ میں ہمارے لئے مسائل کا انبار لگا رہے ہوںگے۔ مسئلہ افغانستان کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ خود امریکہ ہے۔ جب بھی صورتحال میں بہتری کی کوئی صورت نکلنے کا امکان ہوتا ہے امریکی مطالبات تبدیل ہو جاتے ہیں۔اس بار بھی جب سی پیک شروع ہوا ہے امریکہ نے پھرافغانستان اور خطے کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کر لیا ہے۔ وہ ایسے سٹیک ہولڈرز کو افغانستان سمیت سی پیک میں گھسانے کی کوشش کر رہا ہے جو بعد میں وقتاً فوقتاً اسکے مفادات کے تحفظ کے لئے اس میں گڑ بڑ پیدا کرتے رہیں۔فوری طور پر جو بات سمجھ میں آتی ہے کہ پاک امریکہ تجدید تعلقات کا راستہ شاید سی پیک سے جاتا ہے۔ اگر امریکہ کو قائل کر لیا جائے کہ سی پیک میں اسکی خواہشات کا احترام کیا جائے گا تو ممکن ہے وہ کسی حد تک پاکستان پر دبائو کم کرے۔میرا خیال ہے موجودہ حکومت کا فوکس اس وقت زیادہ تر اسی پہلو پر ہے کیونکہ چین پہلے ہی افغانستان میں سرمایہ کاری کو تیار ہے اگر سعودی عرب جو کہ سی پیک کا حصہ بننے کو تیار ہے وہ بھی افغانستان میں اسکا حصہ بن جائے تو معاملات کسی حد تک بہتر ہو سکتے ہیں۔