امریکہ سے یہ میرا پہلا کالم ہے۔ اگرچہ خیال یہی تھا کہ جب یکم دسمبر کو ہم واشنگٹن ڈی سی پہنچیں گے تو اگلے روز سے میں اپنا کالم لکھ کر بھیج دوں گی۔ یوں پُرانی روٹین کے مطابق کالم چھپتے رہیں گے۔ خیال یہی تھا کہ امریکہ کے اس سفر میں ہر روز نئے تجربات اور مشاہدات سے گزرتے ہوئے کالم کے لئے موضوع تلاش کرنے کا مرحلہ بھی درپیش نہ ہو گا بلکہ اسی سفر کے تاثرات اور مشاہدات پر کچھ نہ کچھ لکھتی رہوں گی۔ لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ شاید اس لئے کہ جب بہت کچھ آس پاس ہو رہا ہو تو پھر اس کو جذب کرسکنے‘ لکھنے میں اور بہتر لکھنے میں وقت لگتا ہے۔ لکھنے کے لئے سب سے ضروری چیز ارتکاز ہے اور ایک تخلیقی تنہائی ہے۔ ایک اندر کی خاموشی جو بیک وقت شور میں بدل کر اظہار چاہتی ہے۔ میں جب سے یہاں آئی ہوں ہر دن اپنے ساتھ اتنی ڈھیر ساری سرگرمیاں‘ مشاہدات لے کر آتا ہے کہ کالم لکھنے کے لئے جو لکھاری کو بات کا سِرا پکڑنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ سرا ہی تجربات اور مشاہدات کے ہجوم میں گم ہو جاتا ہے۔ ٹائم زون کے بدلنے سے نیند کے مسائل الگ ہیں۔ بہرحال کالم تو لکھنا تھا‘ اشرف شریف صاحب نے کمال مہربانی سے مجھے رعایت بھی دے دی۔ سو آج امریکہ سے پہلا تاثراتی کالم حاضر ہے۔ 30نومبر اور یکم دسمبر کے درمیان صبح کے 3بجے لاہور سے قطر ایئر ویز کے ذریعے ہمارے سفر کا آغاز ہوا تو پھر اگلے کئی گھنٹے مسلسل سفر میں گزرے۔ دوحہ میں تین گھنٹے کا ٹرانزٹ اور پھر دوبارہ قطر ایئر ویز سے ہم لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ پر لینڈ ہوئے۔ جہاں ہمارا ٹرانزٹ ساڑھے تین گھنٹے تھا۔ اس کے بعد ہمیں امریکن ایئر ویز کے ذریعے واشنگٹن ڈی سی پہنچنا تھا۔ دوحہ ایئر پورٹ کے مقابلے میں لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ سکیورٹی چیک زیادہ تھا۔ یہاں تک کہ بیگ کھولے گئے‘ کچھ کے جوتے اتروائے گئے۔ سخت سردی تھی۔ دو دو سویٹر پہنے ہوئے تھے اس پر جانے گوروں کو کیا شک تھا کہ سویٹرز اتروا کر سکیورٹی چیک کیا گیا ہم جو پہلے ہی دوحہ کے وسیع و عریض ایئر پورٹ سے متاثر تھے ہیتھرو ایئر پورٹ کی تاحد نظر پھیلی ہوئی شان و شوکت کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے ۔ ہیتھرو بلا شبہ دنیا کے مصروف ترین ایئر پورٹس میں سے ایک ہے۔ انٹرنیشنل پسنجر ٹریفک کے لحاظ سے ہیتھرو دنیا کا سب سے بڑا ایئرپورٹ ہے۔ ایک ہی وقت پر کئی کونیکٹڈ فلائٹس یہاں اترتی اور واپسی کے سفر کے لئے پرواز بھرتی ہیں۔ پہلے ہمیں امریکن ایئر ویز سے اپنا اگلا سفر کرنا تھا مگر یہاں بوجوہ ہمیں برٹش ایئر ویز سے سفر کرنا پڑا جو کہ ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ اس لئے کہ قطر ایئر ویز کی ایئر ہوسٹس کے مقابلے میں برٹش ایئر ویز کا عملہ بہت مختلف لگا۔ قطر ایئر ویز کی فضائی میزبان روبوٹس کی طرح تھیں ایک ہی سانچے میں ڈھلی ہوئیں۔ چہرے پر ایک میکانکی مسکراہٹ‘ تکلفانہ انداز اور سرخی اور غازے سے پینٹ کئے ہوئے چہرے جبکہ برٹش ایئر ویز کے جہاز میں قدم رکھتے ہمیں ایک باقاعدہ ادھیڑ عمر میک اپ کے بغیر فضائی میزبانوں نے اتنی اپنائیت‘ سادگی اور بے ساختگی سے خوش آمدید کہا کہ جی خوش ہو گیا۔ اپنا بورڈنگ کارڈ ہاتھ میں اٹھائے جب ہم اپنی سیٹ ڈھونڈتے ہوئے سیٹ تک پہنچے تو سیٹ ایسے ٹوٹی ہوئی تھی جیسے ہمارے ہاں چلنے والی کسی پبلک بس کی ٹوٹی ہوئی سیٹ ہو۔ ٹوٹی ہوئی سیٹ دیکھ کر بالآخر یہ راز کھل گیا کہ ہمیں یہاں اتنی اپنائیت اور اپنے پن کا احساس کیوں ہو رہا ہے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ فضائی میزبان کا پورا ایک گروپ مسافر کو پہنچنے والی اس تکلیف پر شرمندہ ہو رہا تھا۔ یہاں تک کہ سیٹ کے مرمت ہونے تک انہوں نے مجھے ایئر لائن کے کچن کیبن میں نہ صرف اپنی سیٹ پیش کی بلکہ بہترین چائے کا کپ بھی بنا کر دیا۔ چائے کے لوازمات پیش کئے یہ اور بات ہے کہ پھر ساڑھے آٹھ گھنٹے کی فلائٹ میں ہمیں عجیب و غریب ذائقے والے کھانے سے واسطہ پڑتا رہا۔ کھانوں کے نام تو کافی مزیدار سے ہوتے۔ مثلاً پاستاودکولی فلاور اینڈ ٹماٹوز مگر جب کھانے کے لئے پلیٹ آئی تو خوشبو اور ٹیسٹ عجیب سا تھا جسے ہمارے اردگرد بیٹھے ہوئے امریکی تو مزے لے لے کر کھا رہے تھے اور ہم انہیں حیرت سے دیکھتے۔ کھانوں کا تو خیر جب سے ہم یہاں آئے ہیں یہی حال ہے۔ حلال‘ حرام کا مسئلہ الگ ہے۔ ہاں اگر سبزی‘ پاستا یا مچھلی کا آپشن لیں تو اس کا ذائقہ ہمارے حلق سے نہیں اترتا۔ اس لئے یہاں واشنگٹن میں تو ہم دوسرے دن سکینہ حلال گرل پر کھانا کھانے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ یہاں کا بہت مشہور پاکستانی ریسٹورنٹ ہے۔ امریکی دارالحکومت میں واقع اس ریسٹورنٹ میں قدم رکھتے ہی پاکستانی ماحول ہمارا استقبال کرتا ہے۔پاکستانی کھانوں کی خوشبو چار سو پھیلی ہوتی ہے اور بے ذائقہ کھانے جھیلنے والے ہم جیسوں کی بھوک واقعی چمک اٹھتی ہے۔ اس ریسٹورنٹ کے مالک قاضی منان ہیں اور قاضی منان کی کامیابی کی کہانی ایسی ہے کہ اسے اپنے قارئین کے ساتھ تفصیل سے شیئر کرنا چاہیے کیونکہ اس میں بھی سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ میں خواتین صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ انٹرنیشنل وزیٹر لیڈر شپ پروگرام کے تحت یہاں تین ہفتوں کے لئے ہوں اس پروگرام کا بنیادی مقصد خواتین صحافیوں کی کپیسٹی بلڈنگ ہے۔ جس کا اردو ترجمہ ہم یہ کر سکتے ہیں کہ ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو مزید نکھارنے اور تعمیر کرنے کا ایک پروگرام ہے۔ صبح نو بجے سے تقریباً ساڑھے چار پانچ بجے تک گفتگو کی نشستیں ہیں۔ شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے نامور اور سینئر پروفیسرز کے لیکچر ہیں۔ میڈیا ہائوسز کے سٹڈی ٹور ہیں۔ یعنی سیکھنے اور جذب کرنے کے لئے بہت کچھ ہے۔یوں بھی جب آپ کسی بالکل نئی جگہ نئے کلچر کے ماحول میں ہوں تو سیکھنے کو ہر ہر لمحہ کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔ امریکہ تو پھر ایک نئی دنیا ہے۔ بہت سارے تاثر جو ہم نے دور بیٹھ کر کسی ملک کے بارے میں بنائے ہوتے ہیں قریب آنے پہ پتہ چلتا ہے کہ ان میں کچھ بالکل غلط تھے۔ مثلاً ایک مثال میں یہاں دیتی ہوں کہ 5دسمبر کو جب اپنے پروگرام کو آرڈی نیٹرز کے ساتھ مقررہ وقت پر جارج ٹائون یونیورسٹی کی طرف جانے کے لئے نکلے تو ہمیں ڈیڑھ گھنٹہ ٹریفک بلاک کا سامنا کرنا پڑا۔ سڑکوں پر ہر طرف گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں کھڑی تھیں پولیس کی مخصوص گاڑیاں جگہ جگہ دکھائی دیتی اور وجہ اس کی یہ تھی کہ امریکہ کے اکتالیسویں صدر سینئر بش کو اس روز سٹیٹ فیونرل دیا جا رہا تھا۔ نیشنل کیتھڈرل میں ایک ہائی پروفائل سرکاری قسم کی تقریب تھی جس میں تمام سابق صدور‘ جوڈیشری اور ایگزیکٹو کے ہائی پروفائل آفیشل شرکت کر رہے تھے۔ ہمارے کوآرڈی نیٹر نے بتایا کہ امریکہ میں اس طرح کسی وی آئی پی موومنٹ کے لئے سڑکوں کو بند کرنا بہت ہی نایاب واقعہ ہے۔ چونکہ سینئر بش کو امریکی گریٹ اور نوبل سٹیٹس مین کا درجہ دیتے ہیں‘ سرد جنگ کے خاتمے کے حوالے سے سینئر بش کے فیصلوں کو اور خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ تو یہ خصوصی اعزاز ان کو دیا جا رہا ہے کہ سرکاری طور پر امریکی ان کی موت کا سوگ منا رہے ہیں۔ ٹرمپ نے 30دنوں کے لئے اسی سوگ میں امریکی جھنڈے کو سرنگوں رکھنے کا حکم دیا۔2دسمبر کو جب ہم سٹی ٹور پر تھے ہر جگہ سرکاری عمارتوں پر امریکہ کا جھنڈا سرنگوں تھا۔ ہماری ٹور ڈائریکٹر ایک نہایت مہربان چہرے والی خاتون مس لوئس کوئٹز تھیں جو بولتے ہوئے خوب صورت تاثرات کے ساتھ اپنی بات کا اظہار کرتیں تھیں۔ (جاری ہے)