امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی ادارہ صحت پر کورونا کی وبا کا پھیلائو روکنے میں ناکامی کا الزام لگاتے ہوئے ادارے سے تمام تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا ہے‘ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کو فراہم کئے جانے والے فنڈز صحت کے لئے کام کرنے والے دیگر اداروں کو دیے جائیں گے۔ دنیا کے 190سے زائد ممالک کورونا کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ ان میں دولت مند‘ ترقی پذیر اور انتہائی پسماندہ ممالک شامل ہیں۔فروری 2020ء میں جب کورونا کا وائرس چین کے علاقے ووہان میں تباہی پھیلانے کے بعد یورپ اور امریکہ پہنچا تو عالمی ادارہ صحت نے اسے عالمی وبا قرار دے کر اس کے انسداد کے لئے منظم عالمی کوششوں کی حوصلہ افزائی کی۔ اب تک کے عداد و شمار کے مطابق امریکہ میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 2لاکھ سے زائد ہو گئی ہے جبکہ مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ ان کا مخالف میڈیا بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کی ذمہ داری ان پر ڈال کر انہیں آئندہ صدارتی انتخابات میں ہرانا چاہتا ہے۔ امریکہ کے دیہی علاقوں کی نسبت بڑے شہر کورونا سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ امریکہ میں روزانہ 1800کے قریب افراد کورونا کے باعث مر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کو ماہرین نے ایک رپورٹ پیش کی ہے جس کے مطابق موسم گرما کے وسط تک امریکہ میں ہلاکتوں کی تعداد 2لاکھ 40ہزار تک ہو سکتی ہے۔ امریکی عوام کو ممکن ہے اس بات کی پرواہ نہ ہو کہ کتنے مزید لوگ اس وبا کا شکار ہوں گے لیکن تمام امریکی سوگوارضرور ہیں۔ صدر ٹرمپ نے امپیرئیل کالج لندن سے ایک تخمینہ رپورٹ تیار کرائی تھی جس میں 2لاکھ سے زائد ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ صدر ٹرمپ ایک ایسی سپر پاور کے صدر ہیں جو بہتری اور تحقیق کے کسی کام میں پیچھے رہ جانا پسند نہیں کرتی۔ چین امریکہ کا اقتصادی حریف ہے۔ صدر ٹرمپ متعدد بار ایسے فیصلے کر چکے ہیں جن کا مقصد چین کے لئے عالمی تجارت میں مشکلات پیدا کرنا تھا۔ صدر ٹرمپ کی ہدایات پر چین کی سیل فون کمپنی ہواوے پر پابندیاں عائد کی گئیں کیونکہ اس کمپنی نے فائیو جی ٹیکنالوجی پر امریکی اجارہ داری کو پوری دنیا میں چیلنج کر دیا تھا۔ صدر ٹرمپ کے لئے یہ امر بھی باعث شرمندگی ہے کہ چین نے کورونا کی وبا کو چند ہفتوں کے اندر اس طرح کنٹرول کیا کہ ووہان سے باہر اس کے متاثرہ شخص کی خبر نہیں ملتی۔ دوسری طرف امریکہ ہے جو طبی سائنس میں دنیا کی قیادت کا دعویدار ہے۔ دنیا بھر سے لوگ امریکہ میں علاج کرانے آتے ہیں۔ امریکی سائنسدانوں اور تحقیقی لیبارٹریوں کے محیر العقول قصے مشہور ہیں لیکن کورونا کے سامنے نہ صرف امریکی ماہرین اور تحقیق نے گھٹنے ٹیک دیے بلکہ عوام کی طرف سے صدر ٹرمپ کی ہیلتھ پالیسی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ میں کورونا سے متاثرہ افراد کی درست تعداد کا فی الحال اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی میں 3کروڑ لوگ کورونا سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت دنیا بھر میں سنگین بیماریوں اور وبائوں سے بچائو کے لئے کام کرتا ہے۔ یہ اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے۔ پولیو ویکسین اور ملیریا کے خاتمہ کے لئے عالمی ادارہ صحت نے بہت کام کیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت رکن ممالک کے عطیات سے اپنے منصوبے مکمل کرتا ہے۔ صدر ٹرمپ عالمی ادارہ صحت سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ کورونا کے پھیلائو میں چین کو ذمہ دار قرار دے کر تحقیقات شروع کرے۔ امریکہ کے بعض اتحادی ممالک نے بھی یہ مطالبہ اٹھایا ہے تاہم عالمی ادارہ صحت چونکہ کسی ریاست نہیں بلکہ پوری عالمی برادری کی نمائندگی کرتا ہے اس لئے وہ سیاسی ہتھکنڈوں سے خود کو محفوظ رکھتا ہے۔امریکہ چونکہ ادارے کو عطیات فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے اس لئے امریکی صدر کا خیال ہے کہ اگر وہ ڈبلیو ایچ او کو فنڈز کی فراہمی روک دیں اور دیگر منصوبوں میں تعاون بند کر دیں تو یہ ادارہ مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے ادارے کی مدد بند کرنے سے کورونا کی وبا کے خاتمے کی کوششیں متاثر ہو سکتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت میں اصلاحات کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے امریکہ کا لاتعلق ہونا ان اصلاحات کو متعارف کرانے میں مشکل پیدا کر سکتا ہے‘ صرف کورونا کی بات نہیں‘ چھوٹے بچوں کی زندگی کے لئے خطرات پیدا ہوں گے اور پولیو جیسے امراض پھر سے سر اٹھائیں گے۔ امریکہ عالمی ادارہ صحت کو سالانہ 107ملین ڈالر کے عطیات فراہم کرتا رہا ہے۔گزشتہ برس امریکی عطیات کا حجم 400ملین ڈالر تھا۔ امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن نے صدر ٹرمپ کے فیصلے کو غیر ضروری اور غیر منطقی قرار دیا ہے۔ طبی محققین کا کہنا ہے کہ امریکہ نے کورونا کے خلاف لڑنے کی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایک ایسا ادارہ جو صرف انسانوں کی صحت کے لئے کام کر رہا ہے اسے متنازع بنانے سے بیماریوں کے انسداد کی کوششیں متاثر ہوں گی۔ کورونا کا مرض کسی خاص ملک تک محدود نہیں رہا۔ یہ وبا لگ بھگ ہر ملک میں پہنچ چکی ہے اور تاحال کوئی ایک ملک بھی اس کے علاج کی موثر دوا تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس خطرناک وبا نے ثابت کیا ہے کہ یہ سرحدوں اور نسلوں کی پابند نہیں۔امریکی صدر کی یہ خواہش کہ ڈبلیو ایچ او چین سے کورونا کے بارے میں رپورٹ طلب کرے اور چین پر دبائو بڑھائے دراصل یہ ایک سیاسی مطالبہ ہے جس کا مقصد امریکہ کی طبی شعبے میں ناکامی اور انتظامی سطح پر نااہلی پر پردہ ڈالنا ہے۔