امریکی ری پبلیکن سینیٹر لنزے گراہم نے کہا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے حساس وقت میں بائیڈن انتظامیہ کا وزیر اعظم عمران خان سے رابطے میں نہ رہنا بڑی تباہی کا سبب ہو سکتا ہے۔مطلب نکل جانے کے بعد آنکھیں پھیر لینا امریکہ کا وطیرہ رہا ہے ۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد بھی امریکہ خطے کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک کر چلا گیا تھا۔ 9/11کے بعد جب امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑی تو امریکہ نے پاکستان کو نان نیٹو اتحادی کا درجہ دے کر افغان جنگ میں گھسیٹ لیا ۔امریکہ اس جنگ میں پاکستان کو 70ہزار سے زائد انسانی جانوں اور 120ارب ڈالر کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اب ایک بار پھر 20 سال کی لاحاصل جنگ کے بعد امریکہ افغانستان سے فوجی انخلا کا عمل شروع کر چکا ہے، ایک بار پھر امریکہ خطہ کو اس کے حال پر چھوڑ کر افغانستان سے نکل جانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ بغیر کسی منصوبہ بندی اور افغان مفاہمتی عمل کو مکمل کئے بغیر امریکی انخلا سے خطہ ایک بار پھر بدامنی کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو لنزے گراہم کا بیان مبنی برحقیقت ہے کہ امریکہ نے وزیر اعظم عمران سے رابطہ کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ بہتر ہو گا امریکی حکام خطہ کی نازک صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے تمام فریقین سے مشاورت کے بعد محفوظ انخلا کی جامع منصوبہ بندی کریں تاکہ امریکی انخلا کے بعد امن کو یقینی بنا کر خطہ میں ترقی و خوشحالی کی منزل حاصل کی جا سکے۔