امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ افغانستان سے مکمل انخلا مشکل ہے جبکہ دوسری طرف طالبان نے متنبہ کیا ہے کہ یکم مئی تک امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں بصورت دیگر نتائج بھگتنا ہوں گے۔ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی گزشتہ دو دھائیوں تک اپنی تمام تر جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کے باوجود افغانستان میں پائیدار امن قائم کرنے میں ناکام رہے۔ پاکستان کا روز اول سے اصولی موقف ہے کہ تمام افغان سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر حتمی معاہدے کے بغیر افغانستان میں امن ممکن نہیں۔ پاکستان کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے امریکہ نے طالبان سے امن مذاکرات کا آغاز کیا اور عالمی اداروں اور دوست ممالک کی بھر پور کوششوں کے بعد 29فروری 2020ء کو دوحا میں امریکہ اور طالبان نے امن معاہدے پر دستخط بھی کر دئیے ۔ اس معاہدے کو اقوام متحدہ کی جانب سے تائید و حمائت ہی نہیں ضمانت بھی حاصل ہے۔ معاہدے کے مطابق امریکہ کو یکم مئی تک افغانستان سے اپنی تمام فوج نکالنا ہے اب امریکی صدر نے یکم مئی تک انخلا کو مشکل کہا ہے جو دنیا کی واحد سپر پاور کی ناصرف ساکھ کو متاثر کرے گا بلکہ اقوام متحدہ کے بطور ضامن کردار پر بھی سوالیہ نشان لگا دے گا۔ بہتر ہو گا امریکہ معاہدے سے منحرف ہو کر افغانستان کو ایک بار پھر جنگ اور تباہی کی طرف دھکیلنے سے باز رہے اور فریقین افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کریں تاکہ تباہ حال افغانستان میں امن قائم ہو تاکہ خطہ ترقی کر سکے۔