دیارِ غیر کے جتنے بھی سفر نامے ہم نے اپنے ادیبوں اور شاعروں کے پڑھ رکھے تھے ان میں جا بجا‘ ان کے پاکستانی مداحوں اور میزبانوں کی طرف سے سجائی گئیں دعوتوں‘ ظہرانوں اور پرتکلف عشائیوں کی کہانیاں پڑھنے کو ملتیں ایک تو ہمارے شاعر اور ادیب اپنی تخلیقات کے بل بوتے پر اتنے مشہور و معروف اور ہر دل عزیز ہوتے ہیں اور بالخصوص بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں جو اردو ادب سے محبت کرتے ہیں۔ دیار غیر میں بسنے والے وہ پاکستانی جو سالہاسال کی پردیسی کاٹ کر جب خوشحالی کے سرسبز خطے میں داخل ہو جاتے تو پھر انہیں وطن اور اہل وطن کی یاد زیادہ ستانے لگتی ہے۔ اردو ادب سے محبت کرنے والے شاہ خرچ پاکستانی پھر اپنے خرچے پر اپنے پسندیدہ شاعروں ادیبوں اور کالم نگاروں کو بیرون ملک آنے کی دعوت دیتے ہیں بعد کی کہانیوں کا پتہ ہمیں ان خوش قسمت لکھاریوں کے سفر ناموں اور کالموں سے ہوتا ہے‘ جو وطن واپسی پر لکھے جاتے ہیں کہ کس طرح وہ اپنے پاکستانی میزبانوں کے بڑے بڑے آراستہ گھروں میں ٹھہرتے ہیں۔ ان کے اعزاز میں جشن برپا ہوتے ہیں۔ ناشتے‘ ظہرانے اور پرتکلف عشائیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ان کے قیام تک جاری رہتا ہے۔ بھابھی سلمیٰ اور بھابھی عذرا کے ہاتھوں کی پکی ہوئی۔ نہاری‘ سری پائے‘ مٹر قیمہ‘ کریلے گوشت‘ چانپوں‘ مٹن پلائو اور بریانیوں کا ذائقہ قاری پڑھتے پڑھتے محسوس کرنے لگتا ہے۔ یوں امریکہ اور برطانیہ کا سفر نامہ امریکی اور برطانوی صرف نام کا رہ جاتا ہے۔ کھانوں اور ملاقاتوں سے لے کر سب کچھ پاکستانی ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ خوش قسمت شاعر اور ادیب‘ دیار غیر میں جا کر بھی پردیسی ہونے اور غریب الوطن ہونے سے بچے رہتے یا پھر یوں کہیے کہ وہ اس ذائقے سے محروم رہتے ہیں کہ پردیسی ہونا کیا ہونا ہے۔ یا پھر یہ کہ فرنگیوں کے بدذائقہ کھانے دیکھ دیکھ کر کیسے اپنے وطن کا دال ساگ اور گوبھی آلو‘ یاد آنے لگتا ہے۔ ہم چونکہ امریکی حکومت کے مہمان تھے اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ سرکاری اہلکار ہی ہمارے میزبان تھے۔ تو ہمیں کھانے پینے کے معاملے میں شدید قسم کی غریب الوطنی کا احساس ہوتا رہا۔ حلال پاکستانی کھانے کی تلاش ہر روز ہمارے لیے ایک اہم مرحلہ ہوتی۔ یہ اور بات کہ جب تک ہم ایک سٹیٹ میں اپنے اس دیرینہ مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب ہوتے اور کوئی نہ کوئی حلال کھانے کا ریسٹورنٹ تلاش کر لیتے‘ وہاں سے ہمارے کوچ کا اعلان ہو جاتا یعنی۔ اگلی سٹیٹ کو رخت سفر باندھنا ہوتا۔ یوں ہم مسلسل انکل سام کے دیس میں فیض کا یہ مصرعہ گنگناتے رہتے۔ مرے دِل میرے مسافر ۔ ہوا پھر سے حکم صادر۔ کہ وطن بدر ہوں ہم تم۔ دیں گلی گلی صدائیں۔ کریں رخ نگر نگر کا۔ اگلے پڑائو۔ پھر سب سے بڑا مسئلہ یہی ہوتا کہ اب حلال ذائقے دار کھانے کا انتظام کیسے اور کیوں کر ہو گا! امریکہ میں ہمارا سب سے پہلا پڑائو امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں تھا۔ یہاں ہمیں ایک دوپہر امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے خصوصی لنچ دیا گیا۔ واشنگٹن ڈی سی کے ایک مہنگے اور گلیمرس ہوٹلDel Marمیں ظہرانے کا اہتمام تھا۔ ہمارا یہ خیال کہ آخر پاکستانی IVLPگروپ کے لئے کھانا ہے تو یقینا پاکستانی کھانے کا اہتمام کیا ہو گا محض ایک خام خیالی ہی ثابت ہوا۔ اس روز ہمیں پہلی بار اندازہ ہوا کہ ہم کسی گلیمرس ریستوران کے کتنے ہی حسین اور افسانوی ماحول میں بیٹھے ہوں‘ موسیقی کی مدھر تانیں فضا میں بکھر رہی ہوں۔ دھیمی دھیمی روشنیوں نے ایک پرفسوں ماحول بنا رکھا ہو اور میز پر کھانے کے لئے ابلی مچھلی کا ایک ٹکڑا آ جائے جو ایک ابلے ہوئے ٹماٹر سے سجایا گیا ہو تو یقین کریں کہ آپ کو کچھ اچھا نہیں لگتا ریستوران کا سارا افسانوی ماحول اڑن چھو ہو جاتاہے۔ رہ رہ کر بس یہی خیال آتا ہے کہ رات بھی ڈبل روٹی کا سلائس جیم لگا کر کھایا اور صبح ناشتے میں بھی ڈبل روٹی کا سلائس چکن سپریڈ لگا کر کھایا۔ (کرٹسی۔ سعدیہ رفیق ہماری ریڈیو جرنلسٹ دوست جو یہ چکن سپریڈ وہ پاکستان سے اپنے ساتھ لائیں تھیں اور ہم بھی اس سے مستفید ہوتے رہے) اور اب اس ابلی ہوئی مچھلی کے ٹکڑے پر ہی گزارا کرنا ہو گا۔ شومئی قسمت ہم جس میز پر بیٹھے تھے وہیں ہمارے ساتھ ایکسچینج پروگرام کی ڈائریکٹر جو سائوتھ ایشیا کو ڈیل کرتی تھیں۔ میڈیم این گرائمز بھی تشریف رکھتی تھیں۔ انہوں نے برسبیل تذکرہ پوچھ لیا کہ how is your experience here so far? اب میں جو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے دیے گئے اس ’’پرتکلف لنچ‘‘ کو دیکھ کر پہلے ہی تپی بیٹھی تھی بلا تکلف بولی۔ it is Loaded with a lot of exposure and constant hunger. انکے ہاتھ سے کانٹا گرتے گرتے بچا۔ حیران ہو کر کہنے لگیں کہ یہ ایسا کیوں؟ میں نے تو جب بھی کسی IVLPسے بات کی ہے وہ ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ یہاں کھانے کو اتنا کچھ ہوتا کہ سمجھ نہیں آتی کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں۔ میں نے کہا میم‘ وہ پاکستانی نہیں ہوں۔ ہم پاکستانیوں کو حلال کھانا چاہیے ہوتا ہے جوکہ آسانی سے نہیں ملتا۔ اب جیسے یہ مچھلی ہے ہمارے ہاں مصالحے والی‘ ذائقے دار مچھلی کھانے کا رواج ہے۔ اس طرح سٹیم کی ہوئی اور ابلی ہوئی بغیر نمک مرچ کے مچھلی ہمارے پاکستانی ذائقے کی حسیات کو گوارا ہی نہیں۔ بہرحال ہم نے ویٹر سے درخواست کی کہ کوئی ساس یا چٹنی وغیرہ لے آئو اب اس ساس کو جو بظاہر ٹماٹو ساس لگ رہی تھی مچھلی پر ڈال کر کھانے کی کوشش کی تو اس قدر مرچیں کہ کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ حلال کھانے کی تلاش میں ہم ایک روز واشنگٹن ڈی سی کے ایک ایسے پاکستانی ریستوران میں پہنچے جس کے مالک منان قاضی کو امریکی حکومت کی طرف سے مثالی مہاجر (exemplary Immigrant)کا خطاب دیا۔ اس ریستوران کا نام سکینہ حلال گرل تھا جو اپنے ذائقے دار پاکستانی کھانوں کے علاوہ بھی ایک اور وجہ شہرت رکھتا تھا۔ کالم کی جگہ ختم ہوئی۔ سو اس کی کہانی اگلی بار!