ابھی قطر میں طالبان اور امریکہ کے مابین معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ افغانستان میں خونریزی کا بازار گرم ہو گیا ۔بدھ کو ہلمند اور قندوز میں فوجی چھاؤنی اور پولیس ہیڈ کوارٹرز پرحملوں میں مجموعی طور پر 20اہلکار ہلاک ہو گئے ۔جمعہ کو کابل میںدھماکے میں عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی بال بال بچے۔ اس حملے میں 32افراد جاںبحق ہوئے ۔اگرچہ طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی توقعات کے برعکس افغانستان میں امن کا سورج جلد طلوع ہونے والا نہیں۔ طالبان سے امریکہ کے معاہدے کی ایک قابل ذکر بات یہ تھی کہ بظاہر اس معاملے میں نہ صرف افغان صدر اشرف غنی پوری طرح آن بورڈ نہیں لگتے تھے بلکہ خود امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ،وائٹ ہاؤس اور پینٹا گون بھی ایک صفحے پر نہیں تھے۔ اس معاہدے کے تحت افغان حکومت نے پانچ ہزار طالبان قیدی رہا کرنے تھے جبکہ طالبان نے ایک ہزار افغان فوجیوں کو رہا کرنا تھا لیکن عین اس موقع پر جب خصوصی امریکی نمائند ے زلمے خلیل زاد قطر میں معاہدے پر دستخط کر رہے تھے کابل میں امریکی وزیر دفاع مارک اسپر اور صدر اشرف غنی کی ملاقات کے بعد ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو افغان طالبان اور اشرف غنی کی حکومت کے درمیان باقاعدہ مذاکرات کے بعد ہی رہا کیا جائے گا جبکہ طالبان کا اصرار ہے کہ جب تک ان قیدیوں کو رہا نہیں کیا جاتا مذاکرات کا آغاز نہیں ہو سکتا ۔ افغان امور کے بعض ماہرین اور امریکی مبصرین کے مطابق یہ معاہدہ امن کا معاہد ہ نہیں ہے بلکہ پسپائی کا معاہدہ ہے بالکل اسی طرح جب 1988ء میں سوویت یونین کی فوجوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ افغانستان سے اپنا بوریا بستر گول کر کے چلا گیا تھا جس کے بعد لاکھوں افغان مہاجرین ،کلاشنکوف کلچر اور ہشت گردی کی صورت میں اس امریکی پسپائی کی جسے’ ’کٹ اینڈرن‘‘ (Cut and Run) یعنی جان چھڑاؤ اور بھاگو بھی کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی بلکہ آج تک کر رہا ہے ۔ اب بھی لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ ہر قیمت پر افغانستان کوخیرباد کہنا چا ہتے ہیں تاکہ وہ دنیا کو بتا سکیں کہ ان کی پالیسی کے مطابق امریکی افواج غیر ملکی جنگیں نہیں لڑ رہیں۔ اس ضمن میں ٹرمپ کا تازہ بیان خاصا معنی خیز ہے کہ انہوں نے وائٹ ہاؤس میں رپورٹرز سے گفتگو کے دوران قدرے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ آپ کسی کا ہاتھ پکڑکر کب تک چل سکتے ہیں ۔ اس سوال کے جواب میں کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان بالآخر وہاں پھر اقتدار حاصل کر لیں گے، عجیب لیکن حقیقت پسندانہ جواب دیا کہ ایسا ہونا نہیں چاہیے لیکن شاید ایسا ہو بھی جائے ہم بیس سال وہاں قیام کے بعد نکل رہے ہیں اور اگلے بیس سال تو وہاں نہیں ٹھہر سکتے ۔ واضح رہے کہ قطر معاہدے کے تحت امریکہ نے اپنی افواج کی واپسی کا جو شیڈول دیا ہے اس کے مطابق یہ عمل نومبر میں صدارتی انتخابات کے بعد بھی جاری رہے گا اگر یہی معاہدہ کوئی ڈیمو کریٹ صدر کرتا تو ٹرمپ اور ان کی ری پبلکن پارٹی اس پر سخت تنقید کرتے ۔یہ بھی یاد رہے کہ افغانستان پر یلغار مابعد نائن الیون، اکتوبر 2001ء میں طالبان کی حکومت ختم کرنے کے لیے کی گئی تھی کیونکہ القاعدہ کے اڈے افغانستان میں طالبان کی مدد سے قائم تھے ۔ انیس سالہ جنگ کے دوران2440امریکی مارے گئے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ طالبان کی حکومت تو امریکی حملے کے فوراً بعد ہی ختم ہو گئی لیکن آج بھی امریکی پٹھواشرف غنی پورے افغانستان کے حکمران نہیںبلکہ چند اضلاع تک ہی محدود ہیں ۔ اس وقت افغانستان میںطالبان نے افغان حکومت کو زچ کر رکھا ہے۔امریکی حکام کے مطابق 2019ء میں 53.9فیصد افغان اضلاع حکومت کے کنٹرول میں یا اس کے زیر اثر تھے جبکہ قر یباً 34فیصد اضلاع متنازعہ اور12.3 فیصدپر طالبان کا قبضہ تھا ۔ لیکن بعض مبصرین کے مطابق امریکی اعداد وشمار کے برعکس طالبان کا افغانستان کے اس سے بھی زائد علاقے پر قبضہ ہے ۔بعض ماہرین کے مطابق طالبان سے معاہدہ امریکہ کی طرف سے ان کو تحفہ دینے کے مترادف ہے ۔8600امریکی فوجی معاہدے کے 135دنوں میں واپس چلے جائیں گے جبکہ باقی ماندہ امریکی اور ان کے اتحادی 14ماہ میں واپس چلے جائیں گے اس کے ساتھ ہی بیس مارچ تک پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا(تاہم یہ معاملہ ابھی تک کٹھائی میں پڑا ہواہے) اور اگلے تین ماہ میں تما م طالبان قیدی بھی رہا کر دیئے جا ئیں گے اور طالبان پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کر دی جائیں گی۔ ان کے سفر پر پابندیاں اٹھا لی جائیں گی نیز منجمد اثاثے بحال کر دیئے جائیں گے اور ان کو اسلحے کی فروخت پر پابندیاں بھی ختم ہونگی ۔اس کے بدلے افغان حکومت یا امریکہ کو کیا حاصل ہو گا۔ یہ واضح نہیں ہے۔ کیا اس کے بعد طالبان اپنی عسکری کارروائیاں بند کر دیں گے ؟۔انہی مبصرین کے مطابق ایسا شرمناک معاہدہ کرنے سے تو بہتر تھا کہ امریکہ ویسے ہی اپنا سازوسامان باندھ کر افغانستان کو خیرباد کہہ کر چلا جاتا ۔ کیا امریکہ واقعی افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کر نے میںناکام رہا ہے۔ اس کا افغانستان میں قبضہ کرنے کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ نائن الیون کے بعد امریکہ کی سرزمین پر دہشت گردی کا کوئی حملہ نہ ہو ،اس میں وہ کامیاب رہا ہے ۔دنیا میں القاعد ہ کے ٹھکانوں کا صفایا کرنے میں بھی امریکہ خاصی حد تک کامیاب رہا ہے تاہم یہ درست ہے کہ امریکہ طالبان کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے ۔مزید برآں وہاں پر داعش بھی ابھر کر آ گئی ہے اور کابل میں حالیہ دھماکے کو داعش کی کارروائی ہی قرار دیا جا رہا ہے ۔ اس صورتحال میں واضح ہے کہ داعش اور طالبان کی موجودگی میں کابل میں کمزور حکومت کے ہوتے ہوئے امریکی انخلا کے بعد افغانستان کا نقشہ جلد یا بدیربدل جائے گا ۔ جس کا اشارہ خود صدر ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیان میں دیا ہے۔ اس صورتحال کے اثرات پاکستان کے لیے خاصے گھمبیر ہونگے لیکن ایسے لگتا ہے کہ حسب روایت ہماری خارجہ وسکیورٹی پالیسی کے کار پردازان اپنا سر شتر مرغ کی طرح ریت میں دبائے بیٹھے ہیں۔ ہمارے زعما اس بات پر واہ واہ کر رہے ہیں کہ ہم نے امریکہ اور طالبان کی صلح کرا دی ہے لیکن درحقیقت امریکہ افغانستان کو خیرباد کہہ کر جا رہا ہے اور اس کی فوجوں کے انخلا کا براہ راست ملبہ پاکستان پر پڑے گا ۔یہ مہاجرین کی پاکستان دوبارہ آمد، ہمارے خطے کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے اور پاکستان میں دہشت گردوں کی یلغار کی صورت میں تباہ کن ہو سکتا ہے ۔ مقام شکر ہے کہ ہمارے سکیورٹی پالیسی کے ذمہ داران اب افغان طالبان کی زلف کے پہلے کی طرح اسیر نہیں ہیں لیکن اب بھی بہت سے تحریک طالبان پاکستان کے خطرناک دہشت گردافغان علاقے میں گھات لگا ئے بیٹھے ہیں جن کی مذموم کارروائیوں میں تیزی آ سکتی ہے ۔دوسری طرف ہمارے ہاں بھی افغان طالبان کو اپنا سٹرٹیجک اتحادی سمجھنے والوں کی کمی نہیں ہے جیسا کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما سے ایک طویل دستاویز میں کہا تھا کہ یہ توقع رکھنا کہ ہم طالبان کی ٹھکائی کریں گے اس لیے ممکن نہیں ہے کہ افغانستان میں طالبان ایک جغرافیائی حقیقت ہیں اور جغرافیہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا مزید برآں جنرل کیانی نے ایک اور پتے کی بات کہی تھی جو درست ثابت ہوئی ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے مطابق انکے پاس وقت ہے اور امر یکہ کے پاس محض گھڑیاں۔