جنگ کی بربادی سے تار تار یمن کی سات سالہ امل حسین یکم نومبر 2018ء کو بالآخر مر گئی۔ سانس کی ڈوری کا ٹوٹنا امل کے لیے محض ایک تکلف ہی تو تھا۔ اس لیے کہ وہ روز ‘ ہر ہر لمحہ موت سے گزرتی تھی۔ اس نے اپنی مختصر سی حیات کے ساتویں برس میں اس بھری بھرائی ‘ ہائی فائی نعمتوں اور آسائشوں سے لبریز دنیا میں صرف بھوک دیکھی تھی۔ پھربھوک بھی کوئی عام بھوک نہیں کہ ادھر بچہ بھوک سے بلبلائے تو ادھر ماں اسے پیٹ کا دوزخ بجھانے کو کچھ نہ کچھ دے دے۔ نہیں سات سالہ امل حسین کی زندگی اس آسائش سے خالی تھی۔ اس نے اپنی مختصر زندگی کے آخری ساتویں سال میں صرف بھوک سہی‘ بھوک دیکھی‘ بھوک سے کھیلی اور اس کے چار اطراف صرف بھوک تھی اور بھوک کی آگ کو بجھانے اور مٹانے کو چنگیر بھر روٹی اور ایک کٹوری سالن میسر نہ تھا۔ اس کا ننھا بدن روز بھوک کا یہ تازیانہ سہتا رہا۔ سہتا رہا اور پھر امل حسین اس بھوک کے ہاتھوں جو باقی بچی تھی وہ کچھ یوں تھی کہ ہڈیوں کے ڈھانچے پر ماس کو کھینچ کر چڑھا دیا جائے۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں اس بھوک کے ہاتھوں ابل کر باہر آ گئیں تھیں۔اور ان آنکھوں میں بھوک کی وحشت ناچتی تھی۔ اس کی سوکھی سوکھی ٹہنیوں کی طرح ٹانگیں اور بازو تھے اور تصویر میں اس کے قحط زدہ چہرے کی خاموش کہرام برپا کرتی تھی اور اس کہرام نے میرے سوئے ضمیر پر کچھ ایسے کچوکے لگائے میری پٹاری میں جتنے لفظ تھے وہ سب کے سب میرے آنسوئوں میں بہہ گئے۔ امل کو مرے ہوئے تو آدھا مہینہ ہونے کو آیا ہے وہ نومبر کو بھوک کی اس دوزخ سے نجات پا گئی تھی۔ میں نے اس پر لکھنا چاہا مگر میرے سارے لفظ آنسوئوں سے گیلے تھے۔ میں کیسے ان گیلے حرفوں سے امل کا نوحہ لکھتی۔ سچ پوچھیں تو میں نے کاغذ اٹھایا بھی مگر ادھر بھی بارش میں سب کچھ بہہ گیا۔ میرے لفظوں میں اتنی طاقت نہیں تھی میں امل حسین کا نوحہ لکھتی ایسی بچی کا نوحہ جو بھوک سہتے سہتے مر گئی۔امل حسین اور اس جیسے دوسری یمنی بچے عالمی طاقتوں کی جنگ کا پسندیدہ ایندھن۔ ٹریلین اور بلین ڈالرز جنگ میں جھونک دیے جاتے ہیں مگر افسوس کہ اس زمین پر بچے اس لیے قحط سہتے ہیں اور بھوک سے مر جاتے ہیں کہ ان کے بے خانماںبرباد جنگ زدہ والدین کی جیب میں اتنے پیسے ہوتے کہ وہ اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کو کچھ خرید سکیں۔ امل بھی تو جنگ زدہ یمن کی رہنے والی تھی جو پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں زندگی کے آخری دن قحط‘ اور بھوک اور مزید بھوک سہتی سہتی مر گئی ہاں اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں نرس اسے ہر دو گھنٹے کے بعد طاقت کی ایک ڈرپ لگاتی اور اپنے چہرے کو ایک جانب موڑ کر قدرے چھپا کر اپنے آنسو صاف کر لیتی کہ امل کے لیے جینے کا امکان کم ہے امل کے سرہانے بیٹھی اس کی ماں نے یمن کی دوسری بدنصیب مائوں کی طرح اپنی بچی کو موت سے بدترین عذاب میں دیکھ رہی تھی۔ مگر بے بسی کی انتہا کہ وہ کچھ بھی نہ کر سکی۔ نیو یارک ٹائمز کے سرورق پر چھپنے والی امل کی تصویر اسی میک شفٹ ہسپتال میں فوٹو گرافر نے بنائی ۔امل کی یہ تصویر نیو یارک ٹائمز کے ٹائٹل پر چھپی تو ایک بار ٹوئٹر کی دنیا میں صدائے احتجاج بلند ہوئی اب احتجاج ہو یا احساس زیاں سب کا اظہار سوشل میڈیا کی دنیا میں ہی ہوتا ہے۔ ہمارا رونا دھونا چیخنا چلانا سب سکرین کی دنیا میں ہوتا جبکہ اصلی زندگیوں میں ہمیں دنیا کو امل حسین کبھی یاد نہیں رہتی۔ امل کا ملک یمن غریب ترین ملک شمار ہوتا ہے زندگی یوں بھی وہاں کے باسیوں کی آسان نہ تھی مگر 2015ئسے یمن عالمی طاقتوں کی پراکسی وار کا مرکز بن گیا اور یمن کے معصوم بچے اس جنگ کے لیے ان طاقتوں کا پسندیدہ ایندھن ۔اس مہذب دنیاکے کرتا دھرتائوں نے بھوک اور قحط کو یمن کے بچوں کے خلاف جنگ کا موثر ہتھیار سمجھ کر ایک مصنوعی قحط پیدا کیا ایک خدا اور ایک رسولؐ کے ماننے والے کلمہ گو بھائیوں نے اپنے غریب ہمسایہ ملک پر زندگی یوں تنگ کر دی کہ یہاں اس وقت یمن کے 5ملین بچے بھوک اور قحط کے شکنجے میں ہیں۔110بلین ڈالر کے سالانہ امریکی ہتھیاروں کا خریدار مسلم دنیا کا خوشحال ترین ملک سعودی عرب کے سائے میں یمن کے شہریوں اور معصوم بچوں کو بھوک قحط اور بمباری کے ہتھیاروں سے موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔ افسوس کہ مسلمان فرقوں میں بٹ کر عالمی طاقتوں کے گماشتے بن گئے اور اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ سفاکیت اور کسے کہتے ہیں کہ یمن کی سرزمین پر بھوک اور قحط انسان کا اپنا تخلیق کردہ ہے۔ اسے Man made famineکہا گیا۔ کون سی طاقت جو سفاکیت کے اس وحشیانہ کھیل کو لگام دے۔ اقوام متحدہ بھی ان کی جیب میں ہے جو بلین ڈالرز کے ہتھیار سعودی عرب کو بیچتے ہیں کہ یمن کی سرزمین کو تختہ مشق بناتے رہو یہاں کے بھوکے بچوں پر بمباری کرتے رہو۔9اگست 2018ء میں بچوں کے سکول پر اس وقت بمباری کی گئی جب وہ اپنے سکول ٹرپ پر تھے اور جنگ زدہ فضا میں بھی کچھ تفریح کر کے زندگی کا سامان کر رہے تھے۔ لیکن ان پر مہلک ہتھیار آزمائے گئے۔ امریکی فیکٹریوں میں بنے مہلک بم گرائے گئے۔51لوگ اس حملے میں مارے گئے جن میں 40سکول کے بچے تھے۔ امل تو اس دنیا کے دوزخ سے نجات پا گئی۔ لیکن اس جیسے سینکڑوں یمنی بچے آج بھی جنگ کے الائو میں جل رہے ہیں۔ زمین ان پر تنگ کر دی گئی ہے۔ بچپن کی دہلیز پر بھی بھوک اور قحط نے ان کے خوبصورت نرم جسموں کو ڈھانچے میں بدل دیا ہے۔ انسانی صورت کے یہ ڈھانچے انسانیت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ مسلم دنیا او آئی سی۔ اسلامی بلاک امت مسلمہ یہ سب اصطلاحیں بے معنی ہیں۔ بے ضمیر اور بے روحیں جھوٹ اور فریب ہیں۔ اس لیے کہ بیچ اگر کچھ ہے تو یہ ایک برادر اسلامی ملک جو مسلم دنیا کا مرکز اور محور ہے۔ اس کے سائے میں موجود۔ چند سو کلو میٹر کی دوری ایک غریب مسلم ملک میں۔5ملین بچے بھوک اور مصنوعی قحط سے روز لمحہ لمحہ مرتے ہیں اور مسلم دنیا کے مرکز و محور برادر اسلامی ملک ہر سال 83ملین ٹن کھانا کوڑے دان میں جاتا ہے یہ برادر اسلامی ملک دنیا بھر میں خوراک ضائع کرنے کے حوالے سے سرفہرست ہے جس کے سائے میں یمن کی امل حسین اپنا سات سالہ مختصر جیون بھوک اور قحط میں گزارتی رہی۔ لمحہ لمحہ مرتی رہی اور ایک دن سچ مچ مر گئی۔