خبروں کے محاذ پر بہت کچھ ہے‘ ہولناک سماجی ایشوز‘ پاکستانی مارکہ جمہوریت کے اتار چڑھائو۔ اور پھڑکتے ہوئے اخلاقی سکینڈل۔ لیکن آج کا کالم صرف املتاس کے نام ہے۔ مئی املتاس کا مہینہ ہے۔ مئی کی گرم ہوائیں املتاس کی شاخوں کو چھو کر ان زرد پھولوں کا ایسا جادو جگا دیتی ہیں کہ دیکھنے والا مسحور ہو کے رہ جاتا ہے۔ املتاس عجیب درخت ہے خزاں کے موسم میں جب درختوں کے ہاتھ پتوں سے خالی ہو جاتے ہیں۔ املتاس اپنی شاخوں پر سبز پتے لیے باغ میں کھڑا رہتا ہے اور جب بہار کے موسم میں خشک ٹہنیوں پر سبزہ پھوٹ رہا ہوتا ہے اس وقت املتاس کا درخت اپنے پتوں کو رخصت کرنے لگتا ہے۔ درخت کے ہاتھ خالی ہو جاتے ہیں لیکن صرف کچھ دیر کے لئے کیونکہ جلد ہی یہ خالی پن مسحور کن منظر سے بھرنے والا ہوتا ہے مارچ اور اپریل کی بہار کے بعد جب گرم ہوائیں چلتی ہیں تو رنگ رنگ کے موسمی پھول مر جھانے لگتے ہیں اس وقت املتاس ایک عجیب سخاوت سے اچھی خالی شاخوں کو پیلے زرد پھولوں سے بھر دیتا ہے۔ موسم میں گرمی کی شدت بڑھنے لگتی ہے لیکن املتاس کی بانہوں میں جھولتے زرد پھولوں کے فانوس دیکھیں تو بہار اپنے جوبن پر نظر آتی ہے۔ املتاس انسان کے لئے قدرت کا حسین تحفہ ہے۔ گرم موسم میں جب منظر پھولوں سے خالی ہونے لگتا ہے۔ املتاس پھولوں کے ہار لئے انسان کو امید کا پیغام دیتاہے۔ اس کے دل کو خوشی اور سرشاری سے بھر دیتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مئی کا مہینہ آغاز ہوتے ہی ریس کورس پارک میں صرف املتاس کے پھولوں سے لدے ہوئے درخت دیکھنے جایا کرتی تھی ۔ املتاس کے ساتھ میری شناسائی بہت قدیم ہے۔ املتاس سے پہلی ملاقات خان پور والے گھر میں ہوئی گرمیوں کا آغاز تھا جب ہم اس گھر میں شفٹ ہوئے تھے۔اس سرکاری کوٹھی کے سرخ اینٹوں والے پورچ پر املتاس کے زرد پھول سایہ کئے رہتے تھے اور دلچسپ بات کہ درخت ہمارے گھر میں نہ تھا ساتھ والی کوٹھی میں لگا ہوا تھا مگر سوائے چند فٹ کے تنے کے سارے کا سارا ایسے ہمارے گھر جھکا ہوا تھا کہ جن مہینوں میں اس پر پھول کھلے رہتے ہمارا گھر پیلے پھولوں والی کوٹھی کہلاتا۔ اس کی ہمارے گھر کی طرف جھکائو کی ایک وجہ اب سمجھ میں آئی ہے ہمارے ساتھ والی کوٹھی میں کبھی کوئی فیملی آ کے نہیں ٹھہری تھی۔ کسی خاتون خانہ کے سگھڑ خاتون کے وجود سے اسے آباد نہیں کیا۔ ہمیشہ سے اس گھر میں کوئی ایک صاحب نما شخص اپنے ڈرائیور اورخانساماں کے ساتھ رہتے آئے تھے ا س کے مکین بھی اکثر بدلتے رہتے تھے یوں یہ کوٹھی باقاعدہ ویران اور بے آباد سی تھی اب ایسے بے آباد گھر میں املتاس کیا رہتا۔ اسے تو کوئی سراہنے والی نظر چاہیے جو اس کے زرد پھولوں کو نظر بھر کر دیکھے اور ان میں چھپے جادو کو محسوس کرے اور اس کے زرد بہائو میں بہہ جائے۔ اس گھر میں آم‘ امرود‘ انار اورآڑو کے پانچ پیڑر تھے اور چھٹا میرا املتاس جسے میں نے اپنا لیا تھا۔ جیسے آپ کسی چیزکو OWNاون کر لیتے ہیں۔ زندگی اس وقت خوابوں ‘ آرائشوں اور آئیڈیلزم کی کاسنی دھند میں لپٹی ہوئی تھی اسے میں زرد پھولوں کا یہ منور خیزمنظر مجھے مبہوت کر گیا۔ میں اب جہاں بھی املتاس کو دیکھوں مجھے خان پور والے گھر کا املتاس ضرور یاد آتا ہے۔ ان دنوں لاہور میں سڑکوں کے کنارے لگے ہوئے املتاس پر زرد پھولوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ سڑک کنارے لگے ہوئے املتاس کے زرد پھول ٹریفک کے اژدھام اور اس اژدھام میں اپنی اپنی سمت بھاگتی ہوئی خلق خدا کو دیکھ کر سوچتے ہیں کہ کوئی ہے جو ہمارے زرد پھولوں کو سراہے۔ کوئی لکھاری اس زرد جادو کو محسوس کرے اور اسے اپنے لفظوں میں سموئے ۔ کوئی شاعر اس سنہری کہکشاں کو دیکھ کرورڈز ورتھ بن جائے اور اسے نظم کرے۔ کوئی مصور اس زرد کائنات کواپنے کینوس پر اتارے۔ مجھے خشونت سنگھ کی ایک بات یاد آتی ہے کہ کسی شاعر کے قلم میں اتنی جرات نہیں کہ املتاس کی خوبصورتی کو بیان کر سکے ہاں مصور اسے شاید تصویر کر سکے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس کے حسن کو کیمرے سے بھی تصویر کرنا مشکل ہے۔ ہاں کوئی فرصت کے لمحات میں قدرت کے اس حسین منظر کو خالی آنکھ سے دیکھے اور اپنے اندر بھر لے۔ لیکن آج کے دور کا انسان سوشل میڈیا‘ سمارٹ فون کی سکرین میں غرق ہو چکا ہے۔ فیس بک کے نام پر بے چہرہ‘ تعلق سے جڑا ہو۔ ایک روبوٹ میکانکی انداز میں کمنٹ اور لائک کرتا ہوا۔ اس کے اندر کھلی آنکھ سے منظر کی خوبصورتی کو جذب کرنے کی وسعت ختم ہوتی جا رہی ہے وہ ہر منظر کو سمارٹ فون کے کیمرے کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور پھر بیوٹی فلٹر لگا کر اسے اور مصنوعی کرنے کا عادی ہے عجلت میں زندگی کرتاہوا‘ سوشل میڈیا پر تعلقات نبھاتا آج انسان کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ اس کی خوب صورت کو خالی آنکھ سے اپنے اندر جذب کرے۔ حیرت ہے کہ انگلش شاعر ڈبلیو‘ ایچ ڈیوس نے 1911ء میں اپنی نظم Leisureمیں اس بات کا ماتم کیا تھا کہ جدید دور کے انسان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ قدرت کے حسین مناظرکو دیکھ کر سراہے۔ ''No Time to see, When Woods We Pass.When Squirrels hide their nuts in grass.no time to turn at beauty,s glance and watch her feet, how they can dance, آج کے جدید دور کے انسان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ جنگل کے پاس سے گزرتے ہوئے گلہریوں کو اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے دیکھنے کو ذرا دیر کو رکے اس کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ وہ دیکھے قدرت کی خوب صورتی کیسے مناظر میں محو رقص ہے ڈبلیو ایچ ڈیوس اگر آج کے دور میں ا نکلے تو سمارٹ فون کی سکرین میں غرق انسان نما روبوٹوںکو دیکھ کر نہ جانے کیا ماتمی نظم لکھے۔!! نئے زمانوں میں ڈیفوڈلز کے ایک منظر نے ورڈز رتھ کو مسحور کر دیا اور اس نے نظم لکھ کر اس منظر کو امر کر دیا۔ مئی کے موسم میں بکھرے املتاس کے زرد پھولوں کا جادو بھی کسی ورڈز ورتھ کے انتظار میں ہے۔!!